قدرت اللہ شہاب

اردو ادیب، سرکاری افسر اور سفارت کار

قدرت اللہ شہاب (پیدائش: 26 فروری 1917ء – وفات: 24 جولائی 1986ء) مصنف، نثرنگار اور سفارت کار تھے۔

اقتباسات

ترمیم
  • جو لوگ اسلامی آنکھ اور اِنسانی آنکھ میں کوئی فرق رَوا رکھتے ہیں، وہ دراصل بڑی شدید گمراہی میں مبتلاء ہیں۔
    • شہاب نامہ، صفحہ 93۔
  • خاموش آنسوؤں میں مقناطیس ہوتا ہے، جو آرزوؤں کے لوہ چُون کو چُن چُن کر آہستہ سے قریب لاتا ہے۔ بلند چیخوں سے لاوا پُھوٹتا ہے، جس سے کون و مکان میں زلزلے آتے ہیں۔
    • شہاب نامہ، صفحہ 98۔
  • ہمدردی اور ایثار غریبوں کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ بادشاہوں کے خزانے اِس جنس سے خالی ہوتے ہیں۔
    • شہاب نامہ، صفحہ 477۔
  • زندگی اور جمہوریت میں ایک قدر مشترک یہ ہے کہ در پے ناکامیوں کی وجہ سے دونوں منقطع نہیں ہوتیں بلکہ جوں تُوں چلتی رہتی ہیں۔ اگر جمہوریت ناکام ہونے لگے، تو نقلِ خون کی طرح اُس کا واحد علاج مزید جمہوریت ہے۔ دوبارہ ناکام ہونے لگے تو اور بھی مزید جمہوریت۔ باقی سب طریقے عطائیوں، اناڑی ریفارمروں اور نیم حکیموں کے نسخے ہوتے ہیں جو ملک اور قوم کے لیے خطرۂ جان ثابت ہوسکتے ہیں۔
    • شہاب نامہ، صفحہ 486۔
  • جمہوریت کا سکہ اُسی وقت تک چلتا ہے جب تک کہ وہ خالص ہو۔ جوں ہی اُس میں کھوٹ مل جائے، اُس کی کوئی قدر و قیمت باقی نہیں ہتی۔
    • شہاب نامہ، صفحہ 486۔

نظم ’’ نیا گھر‘‘

ترمیم
  • اِک نیا گھر بسا لیا تُو نے
    ہم سے دامن چھڑا لیا تُو نے
    دِل کی دنیاء میں حور ہے نہ قصور
    دعویٰ بے رنگ، دار بے منصور
    خالی خالی سی رات کی بانہیں
    شیشہ بے آب، چاندنی بے نور
    جانے کیا کیا چُرا لیا تُو نے
    اِک نیا گھر بسا لیا تُو نے
    چھا گئے ظلمتوں کے لات و منات
    کیا ہوئی کائنات ذات و صفات
    بے عصاء طور پہ کھڑا ہے کلیم
    نہ جستجو نہ تجلی نہ آرزو نہ بات
    کچھ تو ہے جو اُڑا لیا تُو نے
    اِک نیا گھر بسا لیا تُو نے
    تازہ تازہ سی تیرگی کا سماں
    میٹھی میٹھی سی آگ،ہلکا دھواں
    موتیوں کی لڑی میں تنہائی
    سنگریزوں میں گمشدہ سا نشاں
    ڈھونڈھا مَیں نے تھا، پالیا تُو نے
    اِک نیا گھر بسا لیا تُو نے
    موج در موج خاک کا اَنبار
    مور و ملخ و ملائکہ کی قطار
    ایک تابوتِ نقدِ جاں کے عوض
    ڈولی دلہن کی ساتھ چار کہار
    راز جینے کا پا لیا تُو نے
    اِک نیا گھر بسا لیا تُو نے
    کیا وہاں بھی فساد اُٹھتے ہیں؟
    آگ لگتی ہے، سانس گھٹتے ہیں!
    کیا وہاں بھی برات آئی تھی؟
    کیا وہاں بھی سہاگ لُٹتے ہیں؟
    جانے کیا کیا پتہ لیا تُو نے
    اِک نیا گھر بسا لیا تُو نے
    خیر تیری، ترے مکاں کی خیر
    تہمتِ آرزوئے جاں کی خیر
    ہم تو پھر بھی زبان رکھتے ہیں
    یا خدا! میرے بے زباں کی خیر
    اِک نیا گھر بسا لیا جس نے
    ہم سے دامن چھڑا لیا جس نے[1]
    • شہاب نامہ، صفحہ 771-772۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
ویکیپیڈیا میں اس مضمون کے لیے رجوع کریں قدرت اللہ شہاب.
  1. یہ نظم قدرت اللہ شہاب نے اپنی زوجہ عفت شہاب کے انتقال پر کہی ۔