اشفاق احمد
اقتباسات
ترمیم- جب فوٹو کھنچ چکا تو ماؤ ہمارے سامنے کھڑے ہو کر تالیاں بجانے لگا۔ اب ہم لوگ باری باری اس سے ہاتھ ملانے لگے، جب میری باری آئی تو میں نے اس کے کلچے سے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا اور آہستہ آہستہ ہلانے لگا،پھر میں نے قریبی انٹرپریٹر سے کہا،”ان سے کہو کہ مجھے کوئی نصیحت کریں!۔“ ”نصیحت!“ ماؤ نے حیران ہو کر پوچھا ”کیسی نصیحت؟“ اس کے چہرے پر ناخوشی کے تاثرات تھے۔میں نے کہا کہ ”نصیحت جو ایک بڑ ا بزرگ، ایک تجربہ کار صاحب فراست اپنے چھوٹوں کو کیا کرتا ہے۔“چیئرمین ماؤ ذرا سا مسکرایا پھر اپنی آدھی بند آنکھوں کو اور بند کر لیا۔ ذرا توقف کیا جیسے آٹو گراف دینے والے لمحہ بھر کے لئے سوچا کرتے ہیں۔پھر بڑی صاف اور کھنک دار آواز میں بولا۔”اس کو کہو کہ اپنی بقا اور سالمیت کے لئے اپنے ملک کی سرحدیں غیرملکی اور سامراجی ثقافت پر سربمہر کر دیں۔ یہی میری نصیحت ہے۔“مجھے اتنے بڑے عظیم اور عالمی رہنما کی یہ چھوٹی سی بات پسند نہ آئی۔ اتنے بڑے ماؤ نے اتنی ہلکی سی بات کہی تھی کہ مجھے حوصلہ ہو گیا۔میں نے کہا،”سر ثقافتیں تو ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ ان کو تازہ پانیوں کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے اور پھر یہ دوسری ثقافتوں کے میل جول اور تال میل سے ہی توانا ہوتی ہیں۔“ماؤ نے ہنس کر کہا”جہاں اندر کے پشتے مضبوط ہوتے ہیں وہاں تازہ پانیوں کی آدھ دھار آجانے کی صورت میں کوئی خطرہ نہیں ہوتا لیکن جہاں پشتے کمزور ہوتے ہیں وہاں تازہ پانی طغیانی کی صورت میں آتے ہیں اور جگہ جگہ سے پشتہ بندیاں توڑ کر سارے علاقے کو دلدل بنا دیتے ہیں۔“[1]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم
- ↑ ماؤزے تنگ سے مکالماتی یاد، اشفاق احمد