جلال الدین رومی
مشهور فارسی زبان شاعر
جلال الدین رومی مشہور فارسی شاعر مثنوی مولانا روم کے لکدنے والے۔ آپ کی مثنوی کا ترجما دنیا کی کئی زبانوں میں کیا جا چکا ہے۔ آپ کے پیروکار خود کو مولویہ کہلواتے ہیں۔ آپ کی دی؛گر تصنیفات میں، فیہ ما فی اور دیوان شمس تبریز ہیں اس کے علاوہ کچھ مکتوبات بھی آپ سے منسوب ہیں۔
اقتباسات
ترمیم- چھت پر کچھ لوگ کھڑے ہیں اور ان کا سایہ زمین پر پڑ رہا ہے
وہ لوگ جو چھت پر ہیں گویا فکر ہیں ہیں اور ان کا سایہ عمل - آفتاب کی روشنی کے سوا آفتاب کے وجود کی کوئی دلیل نہیں ہوسکتی۔
سایہ کی کیا ہستی ہے کہ آفتاب کی دلیل بن سکے اس کے لیے یہی بہت ہے کہ آفتاب کا محکوم ہے۔- مثنوی
- اس نے ناز سے کہا کہ دیکھو اب زیادہ نا ستاؤ اور چلتے بنو
اس کا یہی کہنا کہ زیادہ نا ستاؤ میری آرزو ہے۔- دیوان شمس
فیہ ما فیہ
ترمیم- آخر منصور کا انا الحق کہنا بھی یہی معنی رکھتا ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ انا الحق کہنا بہت بڑا دعویٰہے۔ بڑا دعویٰ تو انا العبد (میں بندہ ہوں) کہنا ہے۔ اناالحق بہت بڑی عاجزی ہے کیونکہ جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں خدا کا بندہ ہوں وہ دو ہستیوں کو ثابت کرتا ہے، ایک اپنے آپ کو اور دوسرا خدا کو، لیکن جو اناالحق کہتا ہے وہ اپنے آپ کو معدوم کرتا ہے، فنا کرتا ہے، وہ کہتا ہے اناالحق یعنی میں نہیں ہوں، سب وہی ہے۔ خدا کے سوا کوئی ہستی نہیں، میں کلی طور پر عدم محض ہوں اور کچھ بھی نہیں۔ اس میں بے حد عاجزی ہے مگر یہ بات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔[1]
مولانا رومی کے متعلق اقوال
ترمیمعلامہ محمد اقبال کا فارسی میں خراجِ تحسین
ترمیم- پیر رومی مرشدِ روشن ضمیر
کارروانِ عشق و مستی را اَمیر
منزلش بر تر زِ ماہ و آفتاب
خیمہ را از کہکشاں سازد طناب
نورِ قرآں درمیانِ سینہ اَش
جامِ جم شرمندہ از آئینہ اش
از نئے آں نَے نوازِ پاک زاد
باز شورے در نہادِ من فتاد
گفت جانہا محرمِ اسرار شد
خاور از خوابِ گراں بیدار شد
جذبہ ہائے تازہ اُو را دادہ اند
بندیائے کہنہ را بکشادہ اند- پس چہ باید کرد اے اقوام شرق، صفحہ 803۔
- جز تو اے دانائے اسرارِ فرنگ
کس نکو نہ نشست در نارِ فرنگ
باش مانندِ خلیل اللہ مست
ہر کہن بت خانہ را باید شکست
اُمتاں را زِندگی جذبِ دروں
کم نظر ایں جذبِ را گوید جنوں
ہیچ قومے زیرِ چرخِ لاجورد
بے جنونِ ذو فنوں کارے نہ کرد
مومن از عزم و توکل قاہر است
گر نہ دارد ایں دو جوہر کافر است- پس چہ باید کرد اے اقوام شرق، صفحہ 804۔
- نکتہ ہا از پیر روم آموختم
خویش را در حرف او واسوختم
مال را گر بہر دیں باشی حمول
نِعْمَ مَالٌ صَالِحٌ گوید رسول
گر نداری اندر ایں حکمت نظر
تو غلام و خواجہ تو سیم و زَر- پس چہ باید کرد اے اقوام شرق، صفحہ 825۔
- ہم خوگرِ محسوس ہیں ساحل کے خریدار
اِک بحر پُر آشوب و پُر اسرار ہے رومی
تو بھی ہے اِسی قافلۂِ شوق میں اقبال ؔ
جس قافلۂِ شوق کا سالار ہے رومی
اِس عصر کو بھی اُس نے دیا ہے کوئی پیغام
کہتے ہیں چراغ رہِ اَحرار ہے رومی- بال جبریل، صفحہ 440۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم
- ↑ مولانا جلال الدین رومی، فیہ ما فیہ، (اردو ترجمہ ملفوظات رومی، مترجم، عبدالرشید تبسم) ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، طبح چہارم 1991ء، صفحہ 80