پروین شاکر

پاکستانی اردو شاعرہ

پروین شاکر (پیدائش: 24 نومبر 1952ء – وفات: 26 دسمبر 1994ء) پاکستان کی نامور شہرت یافتہ شاعرہ تھیں۔

اقتباسات

ترمیم
  • ہوا سے بڑھ کر اور کون منافق ہوگا کہ جو صبح سویرے پھول کو چوم کر جگاتی بھی ہے اور شام ڈھلے اپنے حریص ناخنوں سے اُس کی پنکھڑیاں بھی نوچ لیتی ہے۔
    • صد برگ، صفحہ 14۔
  • پھول کتنا ہی پامال کیوں نہ ہو، اچھے دِنوں پر یقین کرنے والے کوئی نہ کوئی شگون لے ہی لیتے ہیں۔ صد برگ بھی تمام تر ریزہ ریزہ ہونے کے با وصف اِسی یقین پر مہر اثبات ہے۔
    • صد برگ، صفحہ 14۔
  • میری شاعری کی عورت سراپا اِنکار ہے ، اِس نے جب تک اپنے جذبے کی قدر دیکھی مجسم سپردگی رہی، لیکن جونہی زندگی کا رویہ تبدیل ہوا، یہ عورت بپھر گئی۔
    • پروین شاکر، فکر و فن، صفحہ 38۔

اشعار

ترمیم
  • نسیم ہوتی ہوئی آئی ہے مدینے سے
    چمک رہے ہیں گُلِ روح پر نگینے سے
    اُبھر رہی ہے سکوتِ حرا سے اک آواز
    اُتر رہی ہے سحر قصرِ شب کے زینے سے
    تِری نگاہ تو ہو میری روح پر اِک دن
    نظر تو آتے ہیں جنگل میں کچھ دفینے سے
    کسی سبب سے ہی خورشید لوٹ کرآیا
    بحکمِ خاص تھا اور خاص ہی قرینے سے
    مرے ستارے کو طیبہ سے کچھ اشارہ ہُوا
    سو بادباں سے غرض ہے نہ اب سیفنے سے
    سُنا ہے جب سے شفاعت کو آپؐ آئیں گے
    تو جیسے بوجھ سا اک ہَٹ گیا ہے سینے سے
    مدینہ ہے تو نجف بھی ہے کربلا بھی ہے
    تمام لعل و گہر ہیں اسی خزینے سے
  • چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کر دیا
    عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
    اے مری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
    اہل کتاب نے مگر کیا ترا حال کر دیا
    ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
    اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا
    اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
    بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا
    ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا
    ہم نے تو ایک بات کی اس نے کمال کر دیا
    میرے لبوں پہ مہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
    شہر کے شہر کو مرا واقف حال کر دیا
    چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
    وقت نے کس شبیہ کو خواب و خیال کر دیا
    مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
    منصب دلبری پہ کیا مجھ کو بحال کر دیا
  • پاسبانی پہ اندھیرے کو تو گھر پر رکھا
    اور چراغوں کو تری راہگزر پر رکھا
    ہاتھ اُٹھائے رہے ہر لمحہ دُعا کی خاطر
    اور الفاظ کو تنسیخِ اَثر پر رکھا
    بے وفائی مری فطرت کے عناصر میں ہوئی
    تیری بے مہری کو اسبابِ دگر پر رکھا
    اِتنا آسان نہ تھا ورنہ اکیلے چلنا
    تجھ سے ملتے رہے اور دھیان سفر پر رکھا
    اُس کی خوشبو کا ہی فیضان ہیں اشعار اپنے
    نام جس زخم کا ہم نے گلِ تر پر رکھا
    پانی دیکھا نہ زمیں دیکھی نہ موسم دیکھا
    بےثمر ہونے کا الزام شجر پر رکھا
  • بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
    یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے
    خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے
    وہ رویہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے
    بزم انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
    اور مری ساری فضیلت اسی پوشاک سے ہے
    اتنی روشن ہے تری صبح کہ ہوتا ہے گماں
    یہ اجالا تو کسی دیدۂ نمناک سے ہے
    ہاتھ تو کاٹ دیے کوزہ گروں کے ہم نے
    معجزے کی وہی امید مگر چاک سے ہے

پروین شاکر سے متعلق اقتباسات و اقوال

ترمیم
  • پروین شاکر کی شاعری اُردو شاعری میں ایک نئی روایت تھی۔ اُس نے عورت کے خالص ترین جذبات کو اپنی شاعری میں اِس طرح سمویا ہے کہ شاعری انوکھا روپ اِختیار کرگئی ہے۔۔۔ میں اُس کی کس کس خوبی کی تعریف کروں، وہ جامع صفات تھی۔ اُس کا لہجہ اُس کی شاعری ، اُس کا رکھ رکھاؤ اور اُس کی ذہانت سب کچھ منفرد تھا۔
    • پروین شاکر، فکر و فن، صفحہ 23۔
  • اُردو ادب میں سچے نسائی محسوسات اور جذبوں کی شاعری بہت کم ہے۔ اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری شاعرات نے آنکھ بند کرکے اُردو زبان اور شاعری کے مرَّوجہ آہنگ کی پیروی کی ہے۔ پروین شاکر کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ اُس نے اپنی خوبصورت، نرم و نازک فوارے کی طرح اُبھرتی اور پھلستی ہوئی شاعری کے ذریعہ اُردو ادب کے شعری اَسالیب میں نئی جہت کا اِضافہ کیا۔
    • پروین شاکر، فکر و فن، صفحہ110۔
  • جدید شاعری کا منظر نامہ پروین شاکر کے دستخط کے بغیر نامکمل ہے۔
    • پروین شاکر، فکر و فن، صفحہ 23۔

حوالہ جات

ترمیم
ویکیپیڈیا میں اس مضمون کے لیے رجوع کریں پروین شاکر.