وحیدالدین خان

اقتباسات ترمیم

عثمانی خلیفہ عبدالحمید ثانی کا زمانہء حکومت 1876ء سے 1909ء تک ہے۔ اس نے ترکی میں ریفارم لانے کی کوشش کی۔ اس نے تعلیمی اضلاحات کا نفاذ کیا۔ تاہم بعض اسباب سے ملک میں اس کی شدید مخالفت ہوئی اور اس کو تخت سے معزول کردیا گیا۔

قدیم زمانہ میں ترکی اپنے عظیم بحری بیڑے کی وجہ سے مشہور تھا۔ مگر جب یورپ میں بھاپ کی طاقت دریافت ہوگئی اور بحری جہازوں کو اسٹیم انجن کے ذریعہ چلانے کا دور آیا تو ترکی اس میدان میں بہت پیچھے ہو گیا۔ مزید یہ کہ اس کا پچھڑا پن اس اس نوبت کو پہنچا کہ نئے طرز کی دخانی کشتیوں کو حاصل کرنا اور ان کو استعمال کرنا بھی ایک خطرناک فعل سمجھا جانے لگا۔

سلطان عبدالحمید ثانی پہلا شخص تھا جس نے بھاپ کی طاقت سے چلنے والا بحری بیڑا (اسطول) تیار کرایا۔ کہا جاتا ہے کہ جب دخانی کشتیاں تیار ہو گئیں تو اس کے بعد وقت کے ترک علماء نے اصرار کیا کہ اس کو استعمال کرنے سے پہلے اس پر بخاری شریف کا ختم ہونا چاہيئے۔ اس کے بغیر کشتبوں کو سمندر میں داخل کرنا ان کے نزدیک مخدوش تھا۔ علماء کا اصرار اس قدر بڑھ گیا تو بعض ترک افسروں نے ان پر طنز کرتے ہوئے کہ کہ بحری بیڑا بخار (بھاپ) سے چلتا ہے نہ کہ بخاری سے۔ (ان السطول یسیر بالبخار لا بالبخاری)

بحری بیڑہ جیسے معاملات میں علماء کا دخل دینا بجائے خود جائز تھا، مگر علماء کو چاہئے تھا کہ اس کے لیے انہیں سب سے پہلے جدید تقاضوں کو گہرائی کے ساتھ‍ سمجھنا ہو گا۔ جدید دور کو سمجھے بغیر جدید معاملات میں دخل دینا ایک جرم ہے ناکہ کوئی رہنمائی۔ مگر بدقسمتی سے موجودہ دور کے علماء نے ہر جگہ یہی نادانی کی ہے۔ ترکی سے لے کر عرب تک اور ہند سے لے کر روس تکہر جگہ اس کی مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

موجودہ زمانہ کے علماء نے جدید دور کا کوئی مطالعہ نہیں کیا۔ وہ عصری تقاضوں سے بالکل بے خبر تھے۔ ایسی حالت میں ان پر فرض تھا کہ وہ مسجد اور مدرسہ کے دائرہ میں اپنے آپ کو محدود رکھیں۔ مگر وہ اپنی حد پر نہیں رکے۔ ان کی نادانی کی چھلانگوں نے موجودہ زمانہ میں ملت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔[1]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. وحیدالدین خان،ماہنامہ تذکیر،مئی 1997ء، شمارہ 246۔