علی پور کا ایلی، ممتاز مفتی کا اردو زبان میں لکھا گیا ناول ہے۔ اسے اردو کے چند بہترین ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔کافی ضخیم ناول ہے اور اسے اردو ادب کا گروگرنتھ بھی کہا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ناول اردو کے عظیم ناولوں میں سے ایک ہے۔ ایک ایسے بچے کی کہانی جس کی نفسیات پر اس کے باپ کی مکمل جنسی زندگی اثر انداز ہوتی ہے اور عورت کا جسم اس کے لیے ایک سراب بن جاتا ہے۔ ناول کا بہترین اور لافانی کردار شہزاد ہے۔[1]

اقتباسات

ترمیم

پہلا باب: علی پور کا ایلی

ترمیم

پہلا صفحہ؛

  • اس کا نام الیاس تھا-لیکن گھر میں سبھی اسے ایلی کہا کرتے تھے-“ایلی-------“ اس کے ابا آواز دیتے- ابا کی آواز سن کر اس کا دل دھک سے رہ جاتا-“ایلی-حقہ بھر دو“ وہ چپ چاپ اٹھ بیٹھتا -ابا کے کمرے کا دروازہ بند دیکھ کرایک ساعت کے لیے ہچکچاتا محسوس کرتا کہ اس بند کمرے میں داخل ہونا ٹھیک نہیں-دبی آواز میں کھانسنے کی کوشش کرتا تاکہ کمرے میں موجود لوگ اس کی آمد سے مطلع ہو جا ئیں-لیکن اس کی آواز حلق میں سوکھ جاتی-پھر وہ بڑی کوشش سے چلاتا “ابا جی“ اور جراءت کرکے دروازہ کھولتا لیکن دروازہ کھولنے سے پہلے اپنی نگاہیں جھکا لیتا اور ایسا انداز اختیار کرلیتا- جس سے ظاہر ہو کی حقہ کے علاوہ اسے کمرے کی کسی چیز سے دلچسپی نہیں-کمرے میں ابا کو اکیلے دیکھ کر اس کے دل سے بوجھ اتر جاتا اور وہ بے فکری سے حقہ کی طرف بڑہتا۔

اس کے ابا عام طور پر چٹائی پر بیٹھے ڈیسک پر رکھے ہوئے رجسٹر میں لکھنے میں مصروف رہتے تھے-وہ قمیض اتار کر بیٹھا کرتے تھے-ان کی دھوتی میلی ہونے کے علاوہ پھٹی ہوئی تھی اور اس کے پلوؤں کو ادھر ادھر سرکے رہنے کی بری عادت تھی-جو ایلی پر بے حد گراں گزرتی-“ہوں---کیاہے“- ابا گھور کراس کی طرف یوں دیکھتے جیسے وہ خواہ مخواہ کمرے میں آ گھسا ہو-“جی-جی --- چلم“-ایلی ان کی دھوتی کی طرف نہ دیکھنے کی شدید کوشش کرتے ہوئے جواب دیتا اور پھر چلم اٹھا کر دروازے کی طرف بھاگتا- (صفحہ 1) [2]

حوالا جات

ترمیم
ویکیپیڈیا میں اس مضمون کے لیے رجوع کریں علی پور کا ایلی.