دجلہ اردو مصنف شفیق الرحمان کی کتاب ہے جس میں چار مضامین بعنوان ’’نیل‘‘، ’’دھند‘‘، ’’ڈینیوب‘‘ اور ’’دجلہ‘‘ شامل ہیں۔

نیل ترمیم

ایک طرف آرکسٹرا ارِمسکی کراسکو کی مشہور دُھن شہرزادی بجا رہا تھا۔ سمفنی کا یہ وہ حصہ تھا جہاں شہرزادی بڑھتے ہوئے طوفان کا قصہ سناتی ہے۔

’’یہ قصہ بغداد کا ہے، دُھن اِس علاقے کی ہے، لیکن نغمہ نگار یورپین ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔‘‘ وہ بولا۔

’’افسوس کی بات تو ہے، لیکن کیا کیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ مشرق کو سمجھنے کے لیے ہمیں مغرب کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ دوسرے موضوع تو ایک طرف رہے، خود ہمارے علوم وہ ہم سے بہتر جانتے ہیں۔ مشرق پر ریسرچ اکثر برٹش میوزیم میں کی جاتی ہے۔ ابنِ خلدون، رازی، بو علی سینا، ابن بطوطہ، بابر اور دیگر شہرۂ آفاق ہستیوں کی تصانیف ہم پہلے انگریزی میں پڑھتے ہیں۔ رہ گئی ہماری موسیقی جس پر ہم اس قدر فریفتہ ہیں، وہ سکھائی جاتی ہے، پڑھائی نہیں جاتی۔ کسی نے اسے لکھا اور چھاپا نہیں۔‘‘

’’ایسا کیوں ہے؟‘‘

’’پتا نہیں۔ شاید اس لیے کہ ہمارے علوم و فنون سینہ بہ سینہ چلتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ فنکار کا بیٹا سدا فنکار نہیں ہوتا۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ طبابت ورثے میں ملے۔ لہٰذا بہت کچھ ضائع ہوتا رہا ہے اور ضائع ہوتا رہے گا۔‘‘


سمیعہ گمال کیا آئی، طوفان آگیا، زلزلہ آگیا۔

ساز تھرائے، واللہ کے نعرے لگے اور رقص شروع ہوا۔ اُس کی انگلیوں میں مجیرے تھے جنھیں وہ بڑی فیاضی سے استعمال کر رہی تھی۔ جو تھوڑا سا لباس اُس نے ازراہِ کرم پہن رکھا تھا، وہ ملتان کی گرمیوں کے لیے تو موزوں ہوسکتا تھا لیکن قاہرہ کی خنک رات کے لیے غالباً مناسب نہیں تھا۔

مشرقِ وسطیٰ کا یہ رقص خوب ہے۔ اس میں آرٹ کم ہے اور تھرکنا زیادہ۔ جنبش اتنی تیز کہ نگاہیں ساتھ نہیں دے سکتیں۔ بالکل جیسے کھلونے کو چابی بھر کر چھوڑ دیا جائے۔


راوی: ’’طبی نکتۂ نظر سے ایسا رقص صحت کے لیے نہایت مفید ہے۔ اس سے کمر کے پٹھے مضبوط ہوتے ہیں۔ بھوک کھل کر لگتی ہے اور متواتر اُچھل کود سے جگر بھی بیدار رہتا ہے۔‘‘
دوست: ’’ہائے، تم سمجھے نہیں۔ طبی رائے کون لے رہا ہے؟ فنّی زاویے سے بتاؤ۔‘‘
راوی: ’’فن کا تو پتا نہیں، لیکن اگر ایسا ناچ اہرام سے بر آمد کی ہوئی کسی فرعون کی ممی کے سامنے کیا جائے تو ممی چھلانگ مار کر اُٹھ کھڑی ہو۔‘‘
دوست: ’’اس علاقے کا رقص ایسا ہی ہے۔ مگر پبلک تو بڑے شوق سے دیکھتی ہے۔ بلکہ حاضرین میں سے کئی تو تسبیح بھی پھیرتے رہتے ہیں، اگرچہ دوسرے ہاتھ میں مشروب ہوتا ہے۔‘‘
راوی: پبلک عادی ہوچکی ہے۔ پبلک اکثر عادی ہوجایا کرتی ہے۔‘‘

فاروق کے محل میں حسن تھا، خمار تھا۔ چنچل پن، چھیڑ چھاڑ، راگ رنگ، سب کچھ تھے۔۔۔ فقط فاروق نہیں تھا۔


چاندنی میں اہرام کو دیکھ کر جو تاثرات پیدا ہوتے ہیں وہ کسی اور عظیم عمارت کو دیکھنے سے نہیں ہوتے۔

اہرام خوشنما نہیں ہیں۔ نہ پُر ہیبت و سنگلاخ ہیں۔ انھیں نستعلیق بھی نہیں کہا جاسکتا۔ پتھروں کے یہ ڈھیر بے حد سادہ سے ہیں، جیسے ریاضی کے کسی طالبِ علم نے تکون بناتے وقت چند خطوط کھینچ دیے ہوں۔ اس کے باوجود ان میں انوکھا پن ہے۔ ان سے عظمت ہویدا ہے اور یہ پُرکشش ہیں۔

یہ انسانی تاریخ کا اوّلین ترین باب ہیں۔


فرعونوں کے نام سب جانتے ہیں۔ اُن کی عظمت و جبروت کے تذکرے عام ہیں۔ لیکن ان کروڑوں انسانوں کے متعلق معلومات بہت کم ہیں جو اس عجوبے کے اصل خالق تھے۔


دوست: تمھارے دریا کیسے ہیں؟
راوی: خیریت سے ہیں۔ مگر ہم نے سارے شہر اُن پر نہیں بسائے۔
دوست: وہ کیوں؟
راوی: شاید اس لیے کہ ہم نے اپنے دریاؤں کو اور اُنھوں نے ہمیں اچھی طرح نہیں سمجھا۔ تبھی وہ بار بار اپنا راستہ بدلتے رہتے ہیں اور سیلاب بھی لاتے ہیں۔‘‘
دوست: لیکن ہم تو نیل کے سیلاب کا بڑے شوق سے انتظار کرتےیہں، کیوں کہ یہ آب پاشی کرتا ہے اور زرخیز مٹی گارا بچھاتا ہے۔
راوی: اتفاق سے ہمارے ہاں آب پاشی کے لیے بے شمار نہریں ہیں۔ لیکن کیا کیا جائے، دریاؤں کو بذاتِ خود آب پاشی کرنے کا شوق ہے۔ چناں چہ برسات میں وہ دور دور کے کھیتوں تک پہے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
دوست: تمھارے ہاں اس طرح دریا کے کنارے سیر کی جاسکتی ہے؟
راوی: رات کے چار بجے تبھی کی جاسکتی ہے جب آوارہ گردی کے چالان کا ڈر نہ ہو۔

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم