"مختار مسعود" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
م نظم
سطر 1:
'''[[:w:مختار مسعود|مختار مسعود]]'''، مختا ر مسعود [[علی گڑھ]] سے تعلیم یافتہ تھے، [[اردو]] زبان کے ممتاز مضمون نگار، سفیر اور آواز دوست کے مصنف۔مصنف ہیں۔
 
==اقتباسات==
* اس براعظم میں [[عالمگیری [[مسجد]] کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا، وہ مینارِ [[مینار پاکستان]] ہے۔ یوں تو [[مسجد]] اور [[مینار]] آمنے سامنے ہیں لیکن انکےان کے درمیان یہ ذرا سی مسافت تین صدیوں پر محیط ہے، جس میں سکھوں کا گردوارہ، ہندوؤں کا [[مندر]] اور فرنگیوں کا پڑاؤ شامل ہیں۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان گمشدہ صدیوں کا [[ماتم]] کر رہا تھا کہ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی ایک بات کہدی ۔۔۔۔کہہ دی:
 
“جب’’جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں۔جائیں، جب حق کی جگہ [[حکایت]] اور [[جہاد]] کی جگہ جمود لےلے۔لےلے، جب ملک کی بجائے مفاد اور [[ملت]] کی بجائے مصلحت عزیز ہو، اور جب مسلمانوں کو [[موت]] سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے، تو صدیاں یونہی گم ہو جایا کرتی ہیں۔“<ref>آواز دوست </ref>
* اس براعظم میں عالمگیری [[مسجد]] کے میناروں کے بعد جو پہلا اہم مینار مکمل ہوا، وہ مینارِ [[پاکستان]] ہے۔ یوں تو مسجد اور مینار آمنے سامنے ہیں لیکن انکے درمیان یہ ذرا سی مسافت تین صدیوں پر محیط ہے، جس میں سکھوں کا گردوارہ، ہندوؤں کا [[مندر]] اور فرنگیوں کا پڑاؤ شامل ہیں۔ میں مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھا ان گمشدہ صدیوں کا [[ماتم]] کر رہا تھا کہ مسجد کے مینار نے جھک کر میرے کان میں راز کی ایک بات کہدی ۔۔۔۔
-----------------------------
<br>
 
* “جن’’جن دنوں میں ملازمت کی تربیت ختم کرنے کے بعد [[لائل پور]] میں تعینات ہوا [[فاطمہ جناح|مس جناح]] وہاں تشریف لائیں، دو چار دن رہنے کے بعد انہیں [[لاہور]] جانا تھا۔ گورنر [[پنجاب، پاکستان|پنجاب]] نے اس سفر کے لیے اپنی موٹر بھیجی تھی۔ مجھے حکم ملا کہ افسر مہمانداری کے خوشگوار فرائض ادا کرتے ہوئے میں لائل پور سے لاہور تک ان کے ساتھ اس موٹر میں سفر کروں۔
<br>
“جب مسجدیں بے رونق اور مدرسے بے چراغ ہو جائیں۔ جب حق کی جگہ [[حکایت]] اور [[جہاد]] کی جگہ جمود لےلے۔ جب ملک کی بجائے مفاد اور [[ملت]] کی بجائے مصلحت عزیز ہو، اور جب مسلمانوں کو [[موت]] سے خوف آئے اور زندگی سے محبت ہو جائے، تو صدیاں یونہی گم ہو جایا کرتی ہیں۔“<ref>آواز دوست </ref>
 
مس جناح نے راستے میں بہت سی باتیں کیں اور اکثر صاف اور کھری باتیں‌تھیں۔ مس جناح نے بتایا کہ [[قائداعظم]] نے [[لیاقت علی خاں]] کی سوجھ بوجھ پر لیاقت ڈیسائی پیکٹ کے بعد بھروسہ نہ کیا اور اگر وقت اور واقعات کی رفتار اتنی تیز نہ ہوتی تو وہ ضرور کسی اور شخص کو ان کی جگہ دے دیتے۔ محترمہ نے یہ بھی کہا کہ ہیکٹر بولیتھو کو قائداعظم کی سوانح عمری لکھنے کے لیے منتخب کیا گیا تاکہ وہ لیاقت علی خان کے کام کو بڑھا کر پیش کرے۔
 
مس جناح نے راستے میں بہت سی باتیں کیں اور اکثر صاف اور کھری باتیں‌تھیں۔ مس جناح نے بتایا کہ [[قائداعظم]] نے لیاقت علی خاں کی سوجھ بوجھ پر لیاقت ڈیسائی پیکٹ کے بعد بھروسہ نہ کیا اور اگر وقت اور واقعات کی رفتار اتنی تیز نہ ہوتی تو وہ ضرور کسی اور شخص کو ان کی جگہ دے دیتے۔ محترمہ نے یہ بھی کہا کہ ہیکٹر بولیتھو کو قائداعظم کی سوانح عمری لکھنے کے لیے منتخب کیا گیا تاکہ وہ لیاقت علی خان کے کام کر بڑھا کر پیش کرے۔ جب ہیکٹر بولتھیو کی کتاب اس گفتگو کے چار سال بعد چھپ کر آئی تو میں نے اس کی ایک جلد خاص طور پر [[کراچی]] سے منگائی اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ مس فاطمہ جناح کے خدشات بالکل درست تھے۔ اس [[کتاب]] میں لکھا ہے کہ [[پاکستان]] کی قسمت کا فیصلہ بڑی حد تک جولائی 1933ء میں اس روز ہوگیا تھا جب لیاقت علی خاں ہیمسٹیڈ ہیتھ گئے تاکہ جلاوطن جناح سے گفتگو کریں۔ یہی نہیں بلکہ اس کتاب میں بیگم رعنا لیاقت کے ذکر کے ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ قائداعظم اپنے خط میں لیاقت علی خان کو لکھا کرتے تھے کہ میرا دل تم دونوں کے ساتھ ہے۔ لطف یہ ہے کہ اس کتاب کے پانچویں باب میں بیگم لیاقت کی زبانی اس خیال کو بھی غلط ثابت کیا گیا ہے کہ اگر قائداعظم کو حالات فرصت دیتے تو وہ لیاقت علی خان کو علیحدہ کر دیتے۔ بیگم لیاقت اس مفروضے کو مہمل قرار دیتی ہے۔ ممکن ہےیہہے یہ سچ ہوہو، مگر مجھے بولتھو کی ساری کتاب ہی مہمل معلوم ہونے لگی۔“ <ref>آوازِ دوست، صفحہ نمبر220 ،221</ref>
-----------------------------
 
* کہنے لگے میں [[فلسطین]] کا حشر دیکھ کر پاکستان کے بارے میں پریشان ہوجاتا ہوں۔ جو قومیں اپنی ترجیحات متعین نہیں کرتیں اور اپنی روایات کی حفاظت کرنے کے بجائے [[کھیل]] کود اور ہنسی مذاق کو آزادی کا حاصل سمجھ لیتی ہیں ان سے سرزمین کا حق ملکیت ،ملکیت، ان کی حکومت سے حق حکمرانی اور بالآخر لوگوں سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔<ref>مصنف کی کتاب لوح ایام صفحہ نمبر 46۔47</ref>
-----------------------------
 
* ۔۔۔۔ کہتے ہیں ایک خاندان میں چینی کا ایک قیمتی اور قدیمی گلدان ہوا کرتا تھا۔ ایک لا ابالی [[نوجوان]] نے بوڑھے جد سے اس کی اہمیت کے بارے پوچھا، جواب ملا کہ وہ نسلوں سے خاندان میں سب سے قیمتی [[ورثہ]] کی حثیت سے محفوظ چلا آرہا ہے اور خاندان کے ہر فرد اور نسل کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کرے۔ نوجواں نے کہا،کہا: اب اس کی حفاظت کا تردد ختم ہواہوا، کیونکہ چینی کا وہ گلدان موجودہ نسل کے ہاتھ سے پھسل کر فرش پر گرا اور چکنا چور ہو گیا۔ <br />
* “جن دنوں میں ملازمت کی تربیت ختم کرنے کے بعد لائل پور میں تعینات ہوا مس جناح وہاں تشریف لائیں، دو چار دن رہنے کے بعد انہیں لاہور جانا تھا۔ گورنر پنجاب نے اس سفر کے لیے اپنی موٹر بھیجی تھی۔ مجھے حکم ملا کہ افسر مہمانداری کے خوشگوار فرائض ادا کرتے ہوئے میں لائل پور سے لاہور تک ان کے ساتھ اس موٹر میں سفر کروں۔
<br>
مس جناح نے راستے میں بہت سی باتیں کیں اور اکثر صاف اور کھری باتیں‌تھیں۔ مس جناح نے بتایا کہ [[قائداعظم]] نے لیاقت علی خاں کی سوجھ بوجھ پر لیاقت ڈیسائی پیکٹ کے بعد بھروسہ نہ کیا اور اگر وقت اور واقعات کی رفتار اتنی تیز نہ ہوتی تو وہ ضرور کسی اور شخص کو ان کی جگہ دے دیتے۔ محترمہ نے یہ بھی کہا کہ ہیکٹر بولیتھو کو قائداعظم کی سوانح عمری لکھنے کے لیے منتخب کیا گیا تاکہ وہ لیاقت علی خان کے کام کر بڑھا کر پیش کرے۔ جب ہیکٹر بولتھیو کی کتاب اس گفتگو کے چار سال بعد چھپ کر آئی تو میں نے اس کی ایک جلد خاص طور پر کراچی سے منگائی اور یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ مس فاطمہ جناح کے خدشات بالکل درست تھے۔ اس [[کتاب]] میں لکھا ہے کہ پاکستان کی قسمت کا فیصلہ بڑی حد تک جولائی 1933ء میں اس روز ہوگیا تھا جب لیاقت علی خاں ہیمسٹیڈ ہیتھ گئے تاکہ جلاوطن جناح سے گفتگو کریں۔ یہی نہیں بلکہ اس کتاب میں بیگم رعنا لیاقت کے ذکر کے ساتھ یہ اشارہ بھی ہے کہ قائداعظم اپنے خط میں لیاقت علی خان کو لکھا کرتے تھے کہ میرا دل تم دونوں کے ساتھ ہے۔ لطف یہ ہے کہ اس کتاب کے پانچویں باب میں بیگم لیاقت کی زبانی اس خیال کو بھی غلط ثابت کیا گیا ہے کہ اگر قائداعظم کو حالات فرصت دیتے تو وہ لیاقت علی خان کو علیحدہ کر دیتے۔ بیگم لیاقت اس مفروضے کو مہمل قرار دیتی ہے۔ ممکن ہےیہ سچ ہو مگر مجھے بولتھو کی ساری کتاب ہی مہمل معلوم ہونے لگی۔“ <ref>آوازِ دوست، صفحہ نمبر220 ،221</ref>
 
حفاظتبو ڑھا بولا: ’’حفاظت کا تردد ختم ہواہوا، ندامت کا دور کبھی ختم نہ ہوہوگا۔‘‘<ref>آواز گا۔دوست</ref>
 
* کہنے لگے میں [[فلسطین]] کا حشر دیکھ کر پاکستان کے بارے میں پریشان ہوجاتا ہوں۔ جو قومیں اپنی ترجیحات متعین نہیں کرتیں اور اپنی روایات کی حفاظت کرنے کے بجائے [[کھیل]] کود اور ہنسی مذاق کو آزادی کا حاصل سمجھ لیتی ہیں ان سے سرزمین کا حق ملکیت ، ان کی حکومت سے حق حکمرانی اور بالآخر لوگوں سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا جاتا ہے۔
<ref>مصنف کی کتاب لوح ایام صفحہ نمبر 46۔47</ref>
 
* ۔۔۔۔ کہتے ہیں ایک خاندان میں چینی کا ایک قیمتی اور قدیمی گلدان ہوا کرتا تھا۔ ایک لا ابالی [[نوجوان]] نے بوڑھے جد سے اس کی اہمیت کے بارے پوچھا، جواب ملا کہ وہ نسلوں سے خاندان میں سب سے قیمتی [[ورثہ]] کی حثیت سے محفوظ چلا آرہا ہے اور خاندان کے ہر فرد اور نسل کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کرے۔ نوجواں نے کہا، اب اس کی حفاظت کا تردد ختم ہوا کیونکہ چینی کا وہ گلدان موجودہ نسل کے ہاتھ سے پھسل کر فرش پر گرا اور چکنا چور ہو گیا۔ <br />
بو ڑھا بولا،<br />
حفاظت کا تردد ختم ہوا ندامت کا دور کبھی ختم نہ ہو گا۔
 
<ref>آواز دوست</ref>
== حوالہ جات ==
{{حوالہ جات}}
{{ویکیپیڈیا}}
 
[[زمرہ:پاکستانی شخصیات]]
[[زمرہ:اردو مصنفین]]