حسین بن علی

علی ابن ابی طالب و فاطمہ زہرا کے بیٹے، نواسہ محمد بن عبد اللہ

حسین بن علی، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے چھوٹے نواسے اور علی بن ابی طالب و فاطمہ زہرا کے چھوٹے بیٹے تھے۔ 'حسین' نام اور ابو عبد اللہ کنیت ہے۔ ان کے بارے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسین منی و انا من الحسین یعنی 'حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں'

خطبات

ترمیم

منیٰ میں خطبہ

ترمیم

آپ نے سنہ 58 ہجری میں بمقام منیٰ ایک خطبہ دیا تھا: میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا تم نہیں جانتے ہو ہے کہ جب رسول الله نے اپنے اصحاب کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم کیا تو اس وقت آنحضرت نے علی ابن ابی طالب کو اپنا بھائی قرار دیاتھااورفرمایا تھا کہ دنیا اور آخرت میں تم میرے اور میں تمہارا بھائی ہوں۔ سامعین نےکہا : بارالہا ! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کے پوچھتا ہوں، کیا تم جانتے ہو کہ رسول الله نے اپنی مسجد اور اپنے گھروں کے لئے جگہ خریدی۔ پھرمسجد تعمیر کی اور اس میں دس گھر بنائے۔ نو گھر اپنے لئے اور دسواں وسط میں میرے والد کے لئے رکھا۔ پھر میرے والد کے دروازے کے سوا مسجد کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کروا دیئے۔ اور جب اعتراض کرنے والوں نے اعتراض کیا تو فرمایا : میں نے نہیں تمہارے دروازے بند کئے اور علی کا دروازہ کھلارکھا، بلکہ الله نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے دروازے بند کروں اور ان کادروازہ کھلا رکھوں۔ اس کے بعد نبی اکرم نے علی کے سوا تمام افراد کو مسجد میں سونے سے منع فرمایا۔ چونکہ حضرت علی کا حجرہ مسجد میں رسول الله کے حجرے کے ساتھ ہی تھا لہذا علی مسجد میں مجنب ہوتے تھے۱ور اسی حجرے میں نبی اکرم اور علی کے لئے الله تعالی نے اولاد یں عطا کیں؟ سامعین نے کہا : بارالہا ! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ عمر بن خطاب کو بڑی خواہش تھی کہ ان کے گھر کی دیوار میں ایک آنکھ کے برابر سوراخ رہے جو مسجد کی طرف کھلتا ہو لیکن نبی نے انہیں منع کر دیا۔ اور خطبے میں ارشاد فرمایا : الله نے مجھے حکم دیا ہے کہ پاک و پاکیزہ مسجد بناؤں لہذا میرے ، میرے بھائی علی اور ان کی اولاد کے سوا کوئی اور شخص مسجدمیں نہیں رہ سکتا۔ سامعین نے کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے غدیر خم کے دن علی کو بلند کیا اور انہیں مقام ولایت پر نصب کرنے کااعلان فرمایا۔ اور کہا کہ یہاں حاضرلوگ اس واقعے کی اطلاع یہاں غیر موجود لوگوں تک پہنچا دیں؟ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تمہارے علم میں ہے کہ رسول الله نے غزوئہ تبوک کے موقع پر علی سے فرمایا : تم میرے لئے ایسے ہی ہو جیسے موسٰی کے لئے ہارون اور فرمایا تم میرے بعد تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہوگے۔ سامعین نے کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا: تمہیں الله کی قسم دے کر پوچھتاہوں کہ جب رسول الله نے نجران کے عیسائیوں کو مباہلے کی دعوت دی، تو اپنے ساتھ، سوائے علی، ان کی زوجہ اور ان کے دو بیٹوں کے کسی اور کو نہیں لے کر گئے؟ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ رسول الله نے جنگ خیبرکے دن لشکر اسلام کا پرچم حضرت علی کے سپرد کیا اور فرمایا کہ میں پرچم اس شخص کے سپرد کر رہا ہوں جس سے الله اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں اور وہ الله اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ ایسا حملہ کرنے والا کرار ہے کہ کبھی پلٹتا نہیں ہے غیرفرار اور خدا قلعہ خیبرکو اس کے ہاتھوں فتح کرائے گا۔سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے علی کو سورئہ برائت دے کر بھیجا اور فرمایا کہ میرا پیغام پہنچانے کا کام خود میرے یا ایسے شخص کے علاوہ جو مجھ سے ہو اور کوئی انجام نہیں دے سکتا۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : کیا آپ جانتے ہیں کہ رسول الله کو جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو آنحضرت حضرت علی پر اپنے خاص اعتمادکی وجہ سے انہیں آگے بھیجتے تھے اور کبھی انہیں ان کے نام سے نہیں پکارتے تھے ، بلکہ اے میرے بھائی کہہ کر مخاطب کرتے تھے ۔ سامعین نے کہا : بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے علی، جعفر اور زید کے درمیان فیصلہ سناتے وقت فرمایا : اے علی! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور میرے بعد تم تمام مومنوں کے ولی اور سرپرست ہو گے۔ سامعین نے کہا :بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ حضرت علی ہر روز، ہرشب تنہائی میں رسول الله سے ملاقات کرتے تھے۔ اگر علی سوال کرتے تو نبی اکرم اس کا جواب دیتے اور اگر علی خاموش رہتے تو نبی خود سے گفتگو کا آغاز کرتے۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بناکر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ کیا تمہیں علم ہے کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر حضرت علی کو جعفر طیار اور حمزہ سید الشہدا پر فضیلت دی ،جب حضرت فاطمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا : میں نے اپنے خاندان کے بہترین شخص سے تمہاری شادی کی ہے ، جو سب سے پہلےاسلام لانے والا، سب سے زیادہ حلیم وبردبار اور سب سے بڑھ کر علم و فضل کا مالک ہے۔سامعین نے کہا: بارالہا! ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ کیا تم جانتے ہو کہ رسول خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سیدوسردار ہوں ، میرا بھائی علی عربوں کا سردار ہے، فاطمہ تمام اہل جنت خواتین کی رہبر ہیں اور میرے بیٹے حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔

کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے حضرت علی کو حکم دیا کہ وہی ان کے جسد اقدس کو غسل دیں اور فرمایا کہ جبرئیل اس کام میں ان کے معاون و مددگار ہوں گے۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ رسول الله نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا : میں تمہارے درمیان دو گرانقدر امانتیں چھوڑے جا رہا ہوں ۔ الله کی کتاب اور میرے اہل بیت۔ ان دونوں کومضبوطی سے تھامے رہو تاکہ گمراہ نہ ہو جاؤ۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ اس کے بعد جب امیر المومنین کے فضائل پر مشتمل امام کی گفتگو اختتام کو پہنچنے لگی تو آپ نے سامعین کو خداکی قسم دے کر کہا کہ کیا انہوں نے رسول الله سے یہ سنا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : جو یہ دعویٰ کرے کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، جبکہ علی کا بغض اس کے دل میں ہوتو وہ جھوٹا ہے، ایسا شخص جو علی سے بغض رکھتا ہو، مجھ سے محبت نہیں رکھتا۔ اس موقع پر کسی کہنے والے نے کہا کہ یا رسول الله یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟ رسول الله نے فرمایا : کیونکہ وہ علی مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں۔ جس نے علی سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی اس نے الله سے محبت کی اور جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے الله سے دشمنی کی ۔ سامعین نے کہا: بارالہا !ہم تجھے گواہ بنا کر کہتے ہیں کہ ہاں! ایسا ہی تھا۔ اے لوگو! الله تعالیٰ نے علمائے یہود کی سرزنش کر کے اپنے اولیاء کو جو نصیحت کی ہے، اس سے عبرت حاصل کرو ۔الله تعالیٰ نے فرمایا :یہودی علما اور دینی رہنما انہیں گناہ آلود باتوں اور حرام خوری سے کیوں نہیں روکتے؟ اور فرمایا : بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر اختیار کیا، انہیں لعن اور نفرین کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ فرمایا : وہ ایک دوسرے کو برے اعمال کی انجام دہی سے منع نہیں کرتے تھے اور وہ کتنا برا کام کرتے تھے۔

درحقیقت الله تعالیٰ نے اس لئے انہیں برا قرار دیا ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے یہ دیکھنے کے باوجود کہ ظالمین کھلم کھلا برائیوں کو پھیلا رہے ہیں ، انہیں ظالموں کو اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں،ان ظالموں کی طرف سے ملنے والے مال و متاع سے دلچسپی تھی اور ان کی طرف سے پہنچ سکنے والی سختیوں سے خوفزدہ تھے۔ جبکہ خداوند متعال کا ارشاد ہے کہ: لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔ اور پروردگار نے فرمایا ہے: مومنین اور مومنات ایک دوسرے کے دوست اور سرپرست ہیں، اچھائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں ۔

اس آیت کریمہ میں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے الله تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے آغاز کیا اور اسے اپنی طرف سے واجب قرار دیا کیونکہ پروردگار

جانتا ہے کہ اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انجام پائے اور معاشرے میں برقرار رکھا جائے تو تمام واجبات، خواہ وہ آسان ہوں یا مشکل، خودبخود انجام پائیں گے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دی جائے اور ساتھ ہی مظلوموں کو انکے حقوق لوٹائے جائیں، ظالموں کی مخالفت کی جائے ،عوامی دولت اور مال غنیمت عادلانہ نظام کے تحت تقسیم ہو، اور صدقات یعنی زکات اور دوسرے واجب اور مستحب مالیات کو صحیح مقامات سے وصول کر کے حقداروں پر خرچ کیا جائے۔

اے وہ گروہ جو علم وفضل کے لئے مشہور ہے، جس کاذکر نیکی اور بھلائی کے ساتھ کیا جاتا ہے ، وعظ و نصیحت کے سلسلے میں آپ کی شہرت ہے اور الله والے ہونے کی بنا پر لوگوں کے دلوں پر آپ کی ہیبت و جلال ہے ،یہاں تک کہ طاقتور آپ سے خائف ہے اور ضعیف و ناتواں آپ کا احترام کرتا ہے، حتیٰ وہ شخص بھی خود پر آپ کو ترجیح دیتا ہے جس کے مقابلے میں آپ کو کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی آپ اس پر قدرت رکھتے ہیں ۔جب حاجت مندوں کے سوال رد ہو جاتے ہیں تو اس وقت آپ ہی کی سفارش کارآمد ہوتی ہے آپ کو وہ عزت و احترام حاصل ہے کہ گلی کوچوں میں آپ کا گزر بادشاہوں کے سے جاہ و جلال اور اعیان و اشراف کی سی عظمت کے ساتھ ہوتا ہے۔

یہ سب عزت و احترام صرف اس لئے ہے کہ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ الہٰی احکام کا اجراء کریں گے ،اگرچہ اس سلسلے میں آپ کی کوتاہیاں بہت زیادہ ہیں۔ آپ نے امت کے حقوق کو نظر انداز کر دیا ہے، معاشرے کے کمزور اوربے بس افراد کے حق کو ضائع کردیا ہے اور جس چیز کو اپنے خیال خام میں اپنا حق سمجھتے تھے اسے حاصل کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ نہ اس کے لئے کوئی مالی قربانی دی اور نہ اپنے خالق کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی اور نہ الله کی خاطر کسی قوم وقبیلے کا مقابلہ کیا۔

اسکے باوجود آپ جنت میں رسول الله کی ہم نشینی اور الله کے عذاب سے امان کے متمنی ہیں، حالانکہ مجھے تو یہ خوف ہے کہ کہیں الله کا عذاب آپ پر نازل نہ ہو،کیونکہ الله کی عزت و عظمت کے سائے میں آپ اس بلند مقام پر پہنچے ہیں، جبکہ آپ خود ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے جو معرفت خدا کے لئے مشہور ہیں جبکہ آپ کو الله کے بندوں میں الله کی وجہ سے عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

آپ دیکھتے رہتے ہیں کہ الله سے کئے ہوئے عہدو پیمان کو توڑاجا رہا ہے، اسکے باوجود آپ خوفزدہ نہیں ہوتے، اس کے برخلاف اپنے آباؤ اجداد کے بعض عہد و پیمان ٹوٹتے دیکھ کر آپ لرز اٹھتے ہیں ، جبکہ رسول الله کے عہد و پیمان۱ نظر انداز ہو رہے ہیں اور کوئی پروا نہیں کی جا رہی ۔ اندھے ، گونگے اور اپاہج شہروں میں لاوارث پڑے ہیں اور کوئی ان پررحم نہیں کرتا۔ آپ لوگ نہ تو خود اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو کچھ کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں نے خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے اپنے آپ کو ظالموں کے ظلم سے بچایا ہوا ہے جبکہ خدا نے اس سے منع کیا ہے اور ایک دوسرے کو بھیمنع کرنے کے لئے کہا ہے ۔اور آپ ان تمام احکام کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔

آپ پر آنے والی مصیبت دوسرے لوگوں پر آنے والی مصیبت سے کہیں بڑی مصیبت ہے ، اس لئے کہ اگر آپ سمجھیں تو علما کے اعلیٰ مقام و منزلت سے آپ کومحروم کر دیا گیا ہے ،کیونکہ مملکت کے نظم و نسق کی ذمہ داری علمائے الہٰی کے سپرد ہونی چاہئے، جو الله کے حلال و حرام کے امانت دار ہیں۔ اور اس مقام و منزلت کے چھین لئے جانے کا سبب یہ ہے کہ آپ حق سے دور ہو گئے ہیں اور واضح دلائل کے باوجود سنت کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں۔

اگر آپ اذیت و آزار جھیلنے اور الله کی راہ میں مشکلات برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے تو احکام الہٰی اجراء کے لئے آپ کی خدمت میں پیش کئے جاتے، آپ ہی سے صادر ہوتے اور معاملات میں آپ ہی سے رجوع کیا جاتا لیکن آپ نے ظالموں اور جابروں کو یہ موقع دیا کہ وہ آپ سے یہ مقام و منزلت چھین لیں اور الله کے حکم سے چلنے والے امور وہ امور جن میں حکم الہٰی کی پابندی ضروری تھی اپنے کنٹرول میں لے لیں تاکہ اپنے اندازوں اور وہم و خیال کے مطابق فیصلے کریں اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کریں۔

وہ حکومت پر قبضہ کرنے میں ا س لئے کامیاب ہو گئے کیونکہ آپ موت سے ڈرکر بھاگنے والے تھے اور اس فانی اور عارضی دنیا کی محبت میں گرفتار تھے۔ پھر آپ کی یہ کمزوریاں سبب بنیں کہ ضعیف اور کمزور لوگ ان کے چنگل میں پھنس گئے اور نتیجہ یہ ہے کہ کچھ تو غلاموں کی طرح کچل دیئے گئے اور کچھ مصیبت کے ماروں کی مانند اپنی معیشت کے ہاتھوں بے بس ہو گئے۔ حکام اپنی حکومتوں میں خودسری، آمریت اور استبداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں ذلت وخواری کا سبب بنتے ہیں، بدقماش افراد کی پیروی کرتے ہیں اور پروردگار کے مقابلے میں گستاخی دکھاتے ہیں۔

ہر شہر میں ان کا یک ماہر خطیب منبر پر بیٹھا ہے ۔ زمین میں ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں یعنی جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں عوام ان کے غلام بن گئے ہیں اور اپنے دفاع سے عاجز ہیں۔ حکام میں سے کوئی حاکم تو ظالم، جابر اور دشمنی اور عناد رکھنے والا ہے اور کوئی کمزوروں کو سختی سے کچل دینے والا ،ان ہی کا حکم چلتا ہے جبکہ یہ نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ روز جزا کو ۔

تعجب ہے اور کیوں تعجب نہ ہو! ملک ایک دھوکے باز ستم کار کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے مالیاتی عہدیدار ظالم ہیں اور صوبوں میں اسکے مقرر کردہ گورنر مومنوں کے لئے سنگ دل اور بے رحم۔ آخر کار الله ہی ان امور کے بارے میں فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں ہمارے اور ان کے درمیان نزاع ہے اور وہی ہمارے اور ان کے درمیان پیش آنے والے اختلاف پر اپنا حکم صادر کرے گا۔

امام نے اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر فرمایا:

بارالہا! تو جانتا ہے کہ جوکچھ ہماری جانب سے ہوا بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اورنہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے بلکہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکار کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں ، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض ، قوانین اور احکام تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہو۔ اب اگر آپ حضرات حاضرین سے خطاب نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم آپ پر اور زیادہ چھا جائیں گے اور نور نبوت کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے۔ ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔

  • کتاب سلیم بن قیس: صفحہ 206۔

اقوال

ترمیم
  • اگر تمہارا کوئی دین نہیں اور قیامت سے نہیں ڈرتے ہو تو اس دنیا میں کم از کم آزاد رہو۔
    • اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، ج1، ص 592۔
  • لوگ دنیا کے غلام ہیں اور اپنی دنیاوی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی زبانوں پر دین کا ورد کرتے رہتے ہیں. اور جب آزمائش میں ڈالے جائیں تو دیندار لوگ بہت کم ہوں گے۔
    • ابن شعبہ، تحف العقول، ص 245۔
  • لوگوں کی تم سے احتیاجات اللہ کی تم پر نعمت ہیں؛ نعمتوں سے تھکن اور مغموم مت ہونا کہیں وہ بلا میں تبدیل نہ ہوجائے۔
    • اربلی، کشف الغمۃ فی معرفۃ الأئمۃ، ج 1، ص 573۔
  • ذلت کی زندگی سے عزت کی موت بہتر ہے۔
    • ابن شہرآشوب، المناقب، ج 4، ص 98۔
  • میں ظلم اور فساد پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لیے قیام کرچکا ہوں؛ میں امر بمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چاہتا ہوں۔
    • خوارزمی، مقتل الحسین، ج 1، ص 273۔
  • جو شخص اللہ کی نافرمانی سے کسی چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہو تو جس چیز کی امید ہے اس کے حصول سے کہیں زیادہ جلدی میں اس چیز کو کھو بیٹھتا ہے اور جس چیز سے گھبرا رہا ہے اس میں گرفتار ہوتا ہے۔
    • ابن شعبہ، تحف العقول، ص 248۔

حسین بن علی کے متعلق اقوال و اقتباسات

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. بخاری شریف


ویکیپیڈیا میں اس مضمون کے لیے رجوع کریں حسین بن علی.