"کشف المحجوب" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 25:
*حقیقتِ تصوف یہ ہے کہ بندہ کی صفت کو فنا کردے اور صفاتِ عبد کا فنا ہونا صفتِ حقہ باقی رہنے کو ہے اور یہی صفتِ حق ہے اور رسم تصوف دواماً بندہ سے مجاہدات و ریاضات کا تقاضا کرتی ہے اور فنائے صفت استقامت و استمرار اُس مجاہدہ پر رکھنا یہ بندہ کی شان ہے اور اِس مضمون کو بالفاظِ دِیگر یوں بھی اداء کرسکتے ہیں کہ حقیقتِ توحید میں بندہ کو کسی صفت سے متصف کرنا صحیح نہیں۔ اِس لیے کہ صفاتِ عبدِ حق عبد میں دوامی نہیں اور بندہ کی صفت کی حقیقت محض رسم ہے۔ اِس سے زیادہ کچھ نہیں اور واضح طور پر روشن ہے کہ صفتِ عبد باقی نہیں رہتی بلکہ بندہ میں کسی صفت کا آنا، یہ ایک فعل ہے اُس قدیم الصفات کا۔ اور ذاتِ قدیم الصفات کے جتنے افعال ہیں، وہ سب اُس کی مِلک اور تحت قدرت ہیں۔ تو درحقیقت جو صفت بندہ میں ہوگی، وہ صفت واجب تعالیٰ شانہ‘ ماننی پڑے گی۔
**باب چہارم: تصوف، صفحہ 126۔
*تصوف اگر رسمی چیز ہوتی تو مجاہدہ و ریاضت سے حاصل ہوجاتا اور اگر یہ علم ہوتا تو محض تعلیم و تعلم سے حاصل ہوجاتا۔ تو ثابت ہوا کہ تصوف ایک خصلتِ خاص کا نام ہے اور جب تک یہ خصلت خود اپنے اندر انسان پیدا نہ کرے تو اُس وقت تک وہ (یعنی تصوف) حاصل نہیں ہوتا۔
**باب چہارم: تصوف، صفحہ 133۔
 
===باب پنجم===