[[w:محمد|محمد]] {{درود}} [[عرب]] کے شہر [[مکہ]] میں پیدا ہوئے۔ آپ نے 63 سال دنیا میں گزارے، آپ نے دنیا کو [[اسلام]] کی تجدید کرائی۔ اور آدم تا ابراہیم اور ابراہیم تا عیسی{{ا}} جو پیغام تھا۔ اس کو زندہ و جاوید کر دیا۔ آپ نے [[قرآن]] کے ذریعے عربوں کو ساری دنیا کی علمی حکمرانی عطا کر دی۔ جس سے صدیوں تک دنیا منور رئی۔ آپ کے اقوال وافعال کو کثرت کے ساتھ مسلمانوں نے محفوظ کیا۔ جن کو [[احادیث]] کہا جاتا ہے، قرآن کو [[وحی]] یعنی [[اللہ]] کی طرف سےنازل شدہ مانا جاتا ہے۔ احادیث کے کثیر مجموعے مرتب ہوغۓ، جن پر باقاعدہ فن اسماء الرجال اور درایت کے اصولوں سے نقد کیا جاتا رہا ہے، جس سے صحیح اور ضعیف، اور چھوٹی روایتوں کو الگ الگ کر دیا گيا ہے۔ احادیث (اقوال افعال نبی) اسلامی [[شریعت]] کا بنیادی ماخڈ ہیں۔ قرآن و حدیث ہی [[فقہ]] اسلامی اور عقائد و نظریات کی بنیاد ہیں۔
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody"><br>
<!-- بغیر حوالہ کے کوئی بھی حدیث یا اثر قبول نہیں کی جائے گی -->
<br>
==[[w:حدیث قدسی==
<br>
==[[w:حدیث صحیح==
==[[w:حدیث ضعیف==
== 1 ==
==[[w:حدیث جبرائیل==
:</span></font></p>
==کھانے پینے سے متعلق==
==حکمرانی، سیاست، بادشاہ==
==عبادت و دعا سے متعلق==
<p> </p>
==حکایات و تماثیل==
==حیات بعد از ممات==
==سائنس و طب ==
<p> </p>
==تاریخ و جغرافیہ==
==نام و نسب==
==حقوق انسانی==
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody"> ابو جمرہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباس (ر) کے سامنے ان کے اور لوگوں کے بیچ
==جانوروں، و پودوں، بے جان چیزوں سے متعلق==
میں مترجم تھا (یعنی اوروں کی بات کو عربی میں ترجمہ کر کے سیدنا ابن عباس (ر) کو
==دیگر مذاہب سے متعلق==
سمجھاتا) اتنے میں ایک عورت آئی اور گھڑے کے نبیذ کے بارہ میں پوچھا۔ سیدنا ابن
عباس (ر) نے کہا کہ عبدالقیس کے وفد رسول اللہ (ص) کے پاس آئے تو آپ] نے پوچھا کہ
یہ وفد کون ہیں؟ یا کس قوم کے لوگ ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ربیعہ کے لوگ ہیں آپ (ص) نے
فرمایا کہ مرحبا ہو قوم یا وفد کو جو نہ رسوا ہوئے نہ شرمند ہوئے (کیونکہ بغیر
لڑائی کے خود مسلمان ہونے کیلئے آئے، اگر لڑائی کے بعد مسلمان ہوتے تو وہ رسوا ہوتے،
لونڈی غلام بنائے جاتے، مال لٹ جاتا تو شرمندہ ہوتے) ان لوگوں نے کہا یارسول اللہ
(ص)! ہم آپ کے پاس دور دراز سے سفر کر کے آتے ہیں اور ہمارے اور آپ (ص) کے درمیان
میں کافروں کا قبیلہ مضر ہے تو ہم نہیں آ سکتے آپ (ص) تک، مگر حرمت والے مہینہ میں
(جب لوٹ مار نہیں ہوتی) اس لئے ہم کو حکم کیجئے ایک صاف بات کا جس کو ہم بتلائیں
اور لوگوں کو بھی اور جائیں اس کے سبب سے جنت میں۔ آپ (ص) نے ان کو چار باتوں کا
حکم کیا اور چار باتوں سے منع فرمایا۔ ان کو حکم کیا اللہ وحدہ لا شریک پر ایمان
لانے کا اور ان سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ ایمان کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور
اس کا رسول خوب جانتا ہے، آپ (ص) نے فرمایا کہ ایمان گواہی دینا ہے اس بات کی کہ
سوا اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک محمد (ص) اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور
نماز کا قائم کرنا اور زکوٰة کا دینا اور رمضان کے روزے رکھنا (یہ چار باتیں ہو
گئیں، اب ایک پانچویں بات اور ہے) اور غنیمت کے مال میں سے پانچویں حصہ کا ادا کرنا
(یعنی کفار کی سپاہ یا مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں سے جو مال حاصل ہو مال غنیمت
کہلاتا ہے) اور منع فرمایا ان کو کدو کے برتن، سبز گھڑے اور روغنی برتن سے۔ (شعبہ
نے) کبھی یوں کہا اور نقیر سے اور کبھی کہا مقیر سے۔ (یعنی لکڑی سے بنائے ہوئے برتن
ہیں)۔ اور فرمایا کہ اس کو یاد رکھو اور ان باتوں کی ان لوگوں کو بھی خبر دو جو
تمہارے پیچھے ہیں۔ اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے مَنْ وَّرَآئَکُمْ کہا بدلے مِنْ
وَرَآئِکُمْ کے۔ (ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے)۔ اور سیدنا ابن معاذ (ر) نے اپنی
روایت میں ا پنے باپ سے اتنا زیادہ کیا کہ رسول اللہ (ص) نے عبدالقیس کے اشج سے (جس
کا نام منذر بن حارث بن زیاد تھا یا منذر بن عبید یا عائذ بن منذر یا عبداللہ بن
عوف تھا) فرمایا کہ تجھ میں دو عادتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے،
ایک تو عقل مندی، دوسرے دیر میں سوچ سمجھ کر کام کرنا جلدی نہ کرنا۔ </span></font>
</p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody"><br>
== 3 ==
: </span></font></p>
<p> </p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody">سعید بن مسیب (جو مشہور تابعین میں سے ہیں)اپنے والد (سیدنا مسیب صبن حزن بن
عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم قرشی مخزومی، جو کہ صحابی ہیں) سے روایت کرتے ہیں
کہ انہوں نے کہا کہ جب ابو طالب بن عبدالمطلب (رسول اللہ (ص) کے حقیقی چچا اور مربی)
مرنے لگے تو رسول اللہ (ص) ان کے پاس تشریف لائے اور وہاں ابو جہل (عمرو بن ہشام)
اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو بیٹھا دیکھا۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اے
چچا تم ایک کلمہ لا الٰہ الا للہ کہہ دو، میں اللہ کے پاس اس کا گواہ رہوں گا
تمہارے لئے (یعنی اللہ عزوجل سے قیامت کے روز عرض کروں گا کہ ابو طالب موحد تھے اور
ان کو جہنم سے نجات ہونی چاہیئے انہوں نے آخر وقت میں کلمہ توحید کا اقرار کیا تھا)۔
ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بولے کہ اے ابو طالب! عبدالمطلب کا دین چھوڑتے ہو؟
اور رسول اللہ (ص) برابر یہی بات ان سے کہتے رہے (یعنی کلمہ توحید پڑھنے کیلئے او
رادھر ابو جہل اور عبداللہ بن ابی امیہ اپنی بات بکتے رہے) یہاں تک کہ ابو طالب نے
اخیر بات جو کی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں اور انکار کیا لا الٰہ
الا اللہ کہنے سے تو رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لئے دعا
کرونگا (بخشش کی) جب تک کہ منع نہ ہو۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”پیغمبر اور
دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کیلئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ
دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں“ (التوبة: 113) اور
اللہ تعالی ٰنے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت اتاری، رسول اللہ (ص) سے فرمایا کہ ”آپ
((ص)) جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔
ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے“ (القصص:56)۔ </span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody"><br>
== 4 ==
:
</span></font></p>
<p> </p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody">سیدنا ابو ہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ (ص) نے وفات پائی اور سیدنا ابو
بکر صدیق (ر) خلیفہ ہوئے اور عرب کے لوگ جو کافر ہونے تھے وہ کافر ہو گئے تو سیدنا
عمر (ر) نے سیدنا ابوبکر صدیق (ر) سے کہاکہ تم ان لوگوں سے کیسے لڑو گے حالانکہ
رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ ”مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ لا
الٰہ الا اللہ کہیں۔ پھر جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اس نے مجھ سے اپنے مال اور جان
کو بچا لیا مگر کسی حق کے بدلے (یعنی کسی قصور کے بدلے جیسے زنا کرے یا خون کرے تو
پکڑا جائے گا) پھر اس کا حساب اللہ پر ہے“۔(اگر اس کے دل میں کفر ہوا اور ظاہر میں
ڈر کے مارے مسلمان ہو گیا ہو تو قیامت میں اللہ اس سے حساب لے گا۔ دنیا ظاہر پر ہے،
دنیا میں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا)۔ سیدنا ابو بکر صدیق (ر) نے کہا اللہ کی قسم
میں تو لڑوں گا اس شخص سے جو فرق کرے نماز اور زکوة میں اس لئے کہ زکوٰة مال کا حق
ہے۔ اللہ کی قسم اگر وہ ایک عقال روکیں گے جو دیا کرتے تھے رسول اللہ (ص) کو تو میں
لڑوں گا ان سے اس کے نہ دینے پر۔ سیدنا عمر (ر) نے کہا اللہ کی قسم پھر وہ کچھ نہ
تھا مگر میں نے یقین کیا کہ اللہ جل جلالہ نے سیدنا ابو بکر (ر) کا سینہ کھول دیا
ہے لڑائی کیلئے۔ (یعنی ان کے دل میں یہ بات ڈال دی) تب میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔
</span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody"><br>
== 5 ==
:</span></font></p>
<p> </p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody"> سیدنا عبداللہ بن عمر (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا
ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ گواہی دیں اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں
سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بیشک محمد ((ص)) اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور
زکوٰة دیں پھر جب یہ کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو بچا لیا مگر
حق کے بدلے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔ <br>
</span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody">
<br>
== 6 ==
: </span></font></p>
<p> </p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody">سیدنا مقداد بن اسود (ر) سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا یارسو ل اللہ (ص)! اگر میں
ایک کافر سے بھڑوں وہ مجھ سے لڑے اور میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ ڈالے پھر مجھ سے
بچ کر ایک درخت کی آڑ لے لے اور کہنے لگے کہ میں تابع ہو گیا اللہ کا تو کیا میں اس
کو قتل کر دوں جب وہ یہ بات کہہ چکے؟ تو آپ (ص) نے فرمایا کہ اس کو مت قتل کر۔ میں
نے کہا یارسول اللہ]! اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا پھر ایسا کہنے لگا تو کیا میں اس کو
قتل کروں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ اس کو قتل مت کر۔ (اگرچہ تجھ کو اس سے صدمہ پہنچا
اور زخم لگا) اگر تو اس کو قتل کرے گا تو اس کا حال تیرا سا ہو گا قتل سے پہلے اور
تیرا حال اس کا سا ہو گا جب تک اس نے یہ کلمہ نہیں کہا تھا۔ </span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody"><br>
== 7 ==
:</span></font></p>
<p> </p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody"> سیدنا اسامہ بن زید (ر) کہتے ہیں رسول اللہ (ص) نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا۔ ہم
صبح کوحرقات سے لڑے جو جہنیہ میں سے ہے۔ پھر میں نے ایک شخص کو پایا، اس نے لا
الٰہ الا لالہ کہا میں نے برچھی سے اس کو مار دیا۔ اس کے بعد میرے دل میں وہم ہوا (کہ
لا الٰہ الا اللہ کہنے پر مارنا درست نہ تھا) میں نے رسول اللہ (ص) سے بیان کیا تو
آپ (ص) نے فرمایا کہ کیا اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا اور تو نے اس کو مار ڈالا؟
میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (ص)! اس نے ہتھیار سے ڈر کرکہا تھا۔ آپ (ص) نے
فرمایا کہ تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا تاکہ تجھے معلوم ہوتا کہ اس کے دل نے یہ
کلمہ کہا تھا یا نہیں؟ (مطلب یہ ہے کہ دل کا حال تجھے کہاں سے معلوم ہوا؟) پھر آپ
(ص) بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ کاش میں اسی دن مسلمان
ہوا ہوتا (تو اسلام لانے کے بعدایسے گناہ میں مبتلا نہ ہوتا کیونکہ اسلام لانے سے
کفر کے اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں)۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص (ر) نے کہا کہ اللہ کی
قسم میں کسی مسلمان کو نہ ماروں گا جب تک اس کو ذوالبطین یعنی اسامہ نہ مارے۔ ایک
شخص بولا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے: ”اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ
ان میں فساد عقیدہ (شرک، بت پرستی) نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہو جائے“؟ تو سیدنا
سعد (ر) نے کہا کہ ہم تو (کافروں سے) اس لئے لڑے کہ فساد نہ ہو اور تو اور تیرے
ساتھی اس لئے لڑتے ہیں کہ فساد ہو۔ </span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody"><br>
== 8: ==
</span></font></p>
<p> </p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody">صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی (ر) نے عسعس بن سلامہ
کو کہلا بھیجا جب سیدنا عبداللہ بن زبیر (ر) کا فتنہ ہوا کہ تم اپنے چند بھائیوں کو
اکٹھا کرو تاکہ میں ان سے باتیں کروں۔ عسعس نے لوگوں کو کہلا بھیجا۔ وہ اکٹھے ہوئے
تو سیدنا جندب (ر) آئے، ایک زرد برنس اوڑھے ہوئے تھے (بُرنس وہ ٹوپی ہے جسے لوگ
شروع زمانہ اسلام میں پہنتے تھے) انہوں نے کہا کہ تم باتیں کرو جو کرتے تھے۔ یہاں
تک کہ سیدنا جندب (ر) کی باری آئی (یعنی ان کو بات ضرور کرنا پڑی) تو انہوں نے برنس
اپنے سر سے ہٹا دیا اور کہا کہ میں تمہارے پاس صرف اس ارادے سے آیا ہوں کہ تم سے
تمہارے پیغمبر کی حدیث بیان کروں۔ رسول اللہ (ص) نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکوں کی
ایک قوم پر بھیجا اور وہ دونوں ملے (یعنی آمنا سامنا ہوا میدانِ جنگ میں) تومشرکوں
میں ایک شخص تھا، وہ جس مسلمان پر چاہتا اس پر حملہ کرتا اور مار لیتا۔ آخر ایک
مسلمان نے اس کو غفلت (کی حالت میں) دیکھا۔ اور لوگوں نے ہم سے کہا (کہ) وہ مسلمان
سیدنا اسامہ بن زید (ر) تھے۔ پھر جب انہوں نے تلوار اس پر سیدھی کی تو اس نے کہا لا
الٰہ الا اللہ لیکن انہوں نے اسے مار ڈالا اس کے بعد قاصد خوشخبری لے کر رسول اللہ
(ص) کے پاس آیا۔ آپ (ص) نے اس سے حال پوچھا۔ اس نے سب حال بیان کیا یہاں تک کہ اس
شخص کا بھی حال کہا تو آپ (ص) نے ان کو بلایا اور پوچھا کہ تم نے کیوں اس کو مارا؟
سیدنا اسامہ (ر) نے کہا یا رسول اللہ (ص)! اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیف دی، فلاں
اور فلاں کو مارا اور کئی آدمیوں کا نام لیا۔ پھر میں اس پر غالب ہوا ، جب اس نے
تلوار کو دیکھا تو لا الٰہ الا اللہ کہنے لگا۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا تم نے اس کو
قتل کر دیا؟ انہوں نے کہا ہاں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا
اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ (ص)! میرے لئے
بخشش کی دعا کیجئے! آپ (ص) نے فرمایا تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ
قیامت کے دن آئے گا؟ پھر آپ (ص) نے اس سے زیادہ کچھ نہ کہا اور یہی کہتے رہے کہ تم
کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟ </span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody"><br>
== 9: ==
</span></font></p>
<p> </p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody"> سیدنا عثمان (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ جو شخص مر جائے اور
اس کو اس بات کا یقین ہو کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ جل جلالہ کے تو وہ
جنت میں جائے گا۔ </span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody"><br>
== 10: ==
</span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype" size="3"><span class="postbody">سیدنا ابو ہریرہ (ر) (یا سیدنا ابو سعید (ر) ) سے روایت ہے (یہ اعمش (ر) کو، جو
کہ اس حدیث کے راوی ہیں، شک ہے) کہ جب غزوہ تبوک کا وقت آیا (تبوک ملک شام میں ایک
مقام کا نام ہے) تو لوگوں کوسخت بھوک لگی۔ انہوں نے کہا یارسول اللہ]! کاش آپ ہمیں
اجازت دیتے تو ہم اپنے اونٹوں کو، جن پر پانی لاتے ہیں ذبح کرتے، گوشت کھاتے اور
چربی کا تیل بناتے۔ آپ (ص) نے فرمایا : اچھا کر لو۔ اتنے میں سیدنا عمر (ر) آئے اور
انہوں نے کہا کہ یارسول اللہ (ص)! اگر ایسا کریں گے تو سواریاں کم ہو جائیں گی (اس
کے بجائے) آپ (ص) تمام لوگوں کو بلا بھیجئے اور کہئے کہ اپنا اپنا بچا ہوا توشہ لے
کر آئیں۔ پھر اللہ سے دعا کیجئے توشہ میں برکت دے، شاید اس میں اللہ کوئی راستہ
نکال دے (یعنی برکت اور بہتری عطا فرمائے) رسول اللہ (ص) نے فرمایا اچھا۔ پھر ایک
دستر خوان منگوایا اور اس کو بچھا دیا اور سب کا بچا ہوا توشہ منگوایا۔ کوئی مٹھی
بھر جوار لایا اور کوئی مٹھی بھر کھجور لایا۔ کوئی روٹی کا ٹکرا، یہاں تک کہ سب مل
کر تھوڑا سا دستر خوان پر اکٹھا ہوا۔ پھر رسول اللہ (ص) نے برکت کیلئے دعا کی۔ اس
کے بعد آپ (ص) نے فرمایا کہ اپنے اپنے برتنوں میں توشہ بھرو، تو سبھی لوگوں نے اپنے
اپنے برتن بھر لئے یہاں تک کہ لشکر میں کوئی برتن نہ چھوڑا جس کو نہ بھرا ہو۔ پھر
سب نے کھانا شروع کیا اور سیر ہو گئے۔ اس پر بھی کچھ بچ رہا تب رسول اللہ (ص) نے
فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں
اور میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ جو شخص ان دونوں باتوں پر یقین کر کے اللہ سے
ملے گا، وہ جنت سے محروم نہ ہو گا۔</span></font></p>
<br>
<br>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2">
== 11 ==
:</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> صنابحی
، سیدنا عبادہ بن صامت (ر) سے روایت کرتے ہیں کہ میں ان کے پاس گیا اور وہ اس وقت
قریب المرگ تھے۔ میں رونے لگا تو انہوں نے کہا کہ ٹھہرو، روتے کیوں ہو؟ اللہ کی قسم
اگرمیں گواہ بنایا جاؤں گا تو تیرے لئے (ایمان کی) گواہی دوں گا اور اگر میری سفارش
کام آئے گی تو تیری سفارش کروں گا اور اگر مجھے طاقت ہو گی تو تجھ کو فائدہ دوں گا۔
پھر کہا اللہ کی قسم نہیں کوئی ایسی حدیث جو کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے سنی اور اس
میں تمہاری بھلائی تھی مگر یہ کہ میں نے اسے تم سے بیان کر دیا البتہ ایک حدیث میں
نے اب تک بیان نہیں کی، وہ آج بیان کرتا ہوں اس لئے کہ میری جان جانے کو ہے۔ میں نے
رسول اللہ (ص) سے سنا آپ (ص) فرماتے تھے کہ جو شخص گواہی دے (یعنی دل سے یقین کرے
اور زبان سے اقرار) کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بیشک محمد ((ص)) اللہ
کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دے گا۔ (یعنی ہمیشہ جہنم میں
رہنے کو یا جہنم کے اس طبقہ کو جس میں ہمیشہ رہنے والے کافر ڈالے جائیں گے)۔ </font>
</span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 12 ==
:</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
ابو ہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (ص) کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ اور
آدمیوں میں سیدنا ابوبکر (ر) اور سیدنا عمر (ر) بھی تھے۔ اتنے میں رسول اللہ (ص)
اٹھے (اور باہر تشریف لے گئے) پھر آپ نے ہمارے پاس آنے میں دیر لگائی تو ہم کو ڈر
ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو اکیلا پا کر مار نہ ڈالیں۔ ہم گھبرا گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔
سب سے پہلے میں گھبرایا تو میں آپ کو ڈھونڈھنے کیلئے نکلا اور بنی نجار کے باغ کے
پاس پہنچا۔ (بنی نجار انصار کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ تھا) اس کے چاروں طرف
دروازہ کو دیکھتا ہوا پھرا کہ دروازہ پاؤں تو اندر جاؤں (کیونکہ گمان ہوا کہ شاید
رسول اللہ (ص) اس کے اندر تشریف لے گئے ہوں) دروازہ ملا ہی نہیں۔ (شاید اس باغ میں
دروازہ ہی نہ ہوگا یا اگر ہو گا تو سیدنا ابو ہریرہ (ر) کو گھبراہٹ میں نظر نہ آیا
ہو گا) دیکھا کہ باہر کنوئیں میں سے ایک نالی باغ کے اندر جاتی ہے، میں لومڑی کی
طرح سمٹ کر اس نالی کے اندر گھسا اور رسول اللہ (ص) کے پاس پہنچا۔ آپ (ص) نے فرمایا
کہ کیا ابوہریرہ ہے؟ میں نے عرض کیا جی یارسول اللہ]! آپ (ص) نے فرمایا کہ کیا بات
ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یارسو ل اللہ (ص)! آپ ہم لوگوں میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپ
(ص) باہر چلے آئے اور واپس آنے میں دیر لگائی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو ہم
سے جدا دیکھ کر نہ ستائیں، ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا اور اس
باغ کے پاس آیا (دروازہ نہ ملا) تو اس طرح سمٹ کر گھس آیا جیسے لومڑی اپنے بدن کو
سمیٹ کر گھس جاتی ہے اور سب لوگ میرے پیچھے آئے ہیں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ اے ابو
ہریرہ! اور مجھے اپنے جوتے (نشانی کیلئے )دئیے (تاکہ لوگ میری بات کو سچ سمجھیں)
اور فرمایا کہ میری یہ دونوں جوتیاں لے جا اور جو کوئی تجھے اس باغ کے پیچھے ملے
اور وہ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اس بات پر
دل سے یقین رکھتا ہو تو اس کو یہ سنا کر خوش کر دے کہ اس کیلئے جنت ہے۔ (سیدنا ابو
ہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ میں جوتیاں لے کر چلا) تو سب سے پہلے میں سیدنا عمر (ر) سے
ملا۔ انہوں نے پوچھا کہ اے ابو ھریرہ یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا کہ رسول اللہ
(ص) کی جوتیاں ہیں۔ آپ (ص) نے یہ دے کر مجھے بھیجا ہے کہ میں جس سے ملوں اور وہ لا
الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو، دل سے یقین کر کے، تو اس کو جنت کی خوشخبری دوں۔
یہ سن کر سیدنا عمر (ر) نے ایک ہاتھ میری چھاتی کے بیچ میں مارا تو میں سرین کے بل
گرا۔ پھر کہا کہ اے ابوہریرہ! لوٹ جا۔ میں رسول اللہ (ص) کے پاس لوٹ کر چلا گیا اور
رونے والا ہی تھا کہ میرے ساتھ پیچھے سے سیدنا عمر (ر) بھی آ پہنچے۔ رسول اللہ (ص)
نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں عمر (ر) سے ملا اور جو
پیغام آپ (ص) نے مجھے دیکر بھیجا تھا پہنچایا تو انہوں نے میری چھاتی کے بیچ میں
ایسا مارا کہ میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ لوٹ جا۔ رسول اللہ (ص) نے سیدنا عمر
(ر) سے کہا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسو ل اللہ]! آپ پر میرے
ماں باپ قربان ہوں۔ ابو ہریرہ کو آپ نے اپنی جوتیاں دیکربھیجا تھا کہ جو شخص ملے
اور وہ گواہی دیتا ہو لا الٰہ الا اللہ کی دل سے یقین رکھ کر تو اسے جنت کی خوشخبری
دو؟ رسول اللہ (ص) نے فرمایا ہاں۔ سیدنا عمر (ر) نے کہا کہ (آپ پر میرے ماں باپ
قربان ہوں) ایسا نہ کیجئے کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے، ان
کو عمل کرنے دیجئے۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا اچھا ان کو عمل کرنے دو۔</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"> <br>
== 13 ==
:</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
معاذ بن جبل (ر) کہتے ہیں کہ میں سواری پر رسول اللہ (ص) کے ہمراہ پیچھے بیٹھا ہوا
تھا، میرے اور آپ (ص) کے درمیان سوائے پالان کی پچھلی لکڑی کے کچھ نہ تھا۔ آپ (ص)
نے فرمایا اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں آپ کی خدمت میں اور آپ
کا فرمانبردار ہوں یارسول اللہ (ص)! پھر آپ (ص) تھوڑی دیر چلے اس کے بعد فرمایا کہ
اے معاذ بن جبل! میں نے کہا یارسول اللہ (ص)! فرمانبردار آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔
پھر آپ (ص) تھوڑی دیر چلے اس کے بعد فرمایا کہ اے معاذ بن جبل! میں نے کہا یارسول
اللہ (ص)! فرمانبردار آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ تو جانتا ہے
اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ
(ص) نے فرمایا کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کیساتھ
کسی کو شریک نہ کریں۔ پھر آپ تھوڑی دیر چلے پھر فرمایا کہ اے معاذ بن جبل! میں نے
کہا یارسول اللہ]! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ کا فرمانبردار ہوں۔ آپ (ص)
نے فرمایا کہ تو جانتا ہے کہ جب بندے یہ کام کریں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے؟ جب
بندے یہ کام کریں (یعنی اسی کی عبادت کریں، کسی کو اس کیساتھ شریک نہ کریں) میں نے
کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ وہ حق یہ ہے کہ اللہ
ان کو عذاب نہ کرے۔ </font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 14 ==
:</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
محمود بن ربیع (ر) سیدنا عتبان بن مالک (ر) سے سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں
مدینہ میں آیا تو عتبان سے ملا اور میں نے کہا کہ ایک حدیث ہے جو مجھے تم سے پہنچی
ہے (پس تم اسے بیان کرو) عتبان نے کہا کہ میری نگاہ میں فتور ہو گیا (دوسری روایت
میں ہے کہ وہ نابینا ہو گئے اور شاید ضعفِ بصارت مراد ہو) میں نے رسول اللہ (ص) کے
پاس کہلا بھیجا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے مکان پر تشریف لا کر کسی جگہ نماز
پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو مصلی بنا لوں(یعنی ہمیشہ وہیں نماز پڑھا کروں اور یہ
درخواست اس لئے کی کہ آنکھ میں فتور ہو جانے کی وجہ سے مسجدِ نبوی میں آنا دشوار
تھا) تو رسول اللہ (ص) تشریف لائے اور جن کو اللہ نے چاہا اپنے اصحاب میں سے ساتھ
لائے۔ آپ اندر آئے اور نماز پڑھنے لگے اور آپ (ص) کے اصحاب آپس میں باتیں کر رہے
تھے۔ (منافقوں کا ذکر چھڑ گیا تو ان کا حال بیان کرنے لگے اور ان کی بُری باتیں اور
بُری عادتیں ذکر کرنے لگے) پھر انہوں نے بڑا منافق مالک بن دخشم کو کہا (یا مالک بن
دخیشم یا مالک بن دخشن یا دخیشن) اور چاہا کہ رسول اللہ (ص) اس کیلئے بددعاکریں اور
وہ مر جائے اور اس پر کوئی آفت آئے (تو معلوم ہوا کہ بدکاروں کے تباہ ہونے کی آرزو
کرنا بُرا نہیں) اتنے میں رسول اللہ (ص) نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا کہ کیا وہ (یعنی
مالک بن دخشم) اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور
میں اللہ کا رسول ہوں۔ صحابہ 'نے عرض کیا وہ تو اس بات کو زبان سے کہتا ہے لیکن دل
میں اس کا یقین نہیں رکھتا۔ آپ (ص) نے فرمایا جو سچے دل سے لا الٰہ الا اللہ کی
گواہی دے اور محمد رسول اللہ (ص) کی پھر وہ جہنم میں نہ جائے گا یا اس کو انگارے نہ
کھائیں گے۔ سیدنا انس (ر) نے کہاکہ یہ حدیث مجھے بہت اچھی معلوم ہوئی تو میں نے
اپنے بیٹے سے کہاکہ اس کو لکھ لے، پس اس نے لکھ لیا۔ <br>
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 15: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
ابو سعید خدری (ر) سے روایت ہے کہ کچھ لوگ عبدالقیس کے رسول اللہ (ص) کے پاس آئے
اور کہنے لگے کہ یارسول اللہ (ص)! ہم ربیعہ کی ایک شاخ ہیں، اور ہمارے اور آپ (ص)
کے بیچ میں قبیلہ مضرکے کافر ہیں اور ہم آپ ]کے پاس حرام مہینوں کے علاوہ (کسی اور
مہینے میں) نہیں آ سکتے تو ہمیں ایسے کام کا حکم کیجئے کہ جسے ہم ان لوگوں کو
بتلائیں جو ہمارے پیچھے (رہ گئے) ہیں اور ہم اس کام کی وجہ سے جنت میں جائیں، جب کہ
ہم اس پر عمل کریں۔ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم کرتا
ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں (جن چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں وہ یہ ہیں کہ)
صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کیساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور نماز قائم کرو اور
زکوٰة دو اور رمضان کے روزے رکھو اور غنیمت کے مالوں میں سے پانچواں حصہ ادا کرو
اور میں تمہیں چار چیزوں سے منع کرتا ہوں۔ کدو کے تونبے اور سبز لاکھی برتن اور
روغنی برتن اور نقیر سے۔ لوگوں نے کہا یارسول اللہ (ص) ! نقیر آپ نہیں جانتے۔ آپ
(ص) نے فرمایا کیوں نہیں جانتا، نقیر ایک لکڑی ہے، جسے تم کھود لیتے ہو، پھر اس میں
قطیعا (ایک قسم کی چھوٹی کھجور، اس کو شریر بھی کہتے ہیں) بھگوتے ہو۔ سعید نے کہا
یا”تمر‘ بھگوتے ہو۔ پھر اس میں پانی ڈالتے ہو۔ جب اس کا جوش تھم جاتا ہے تو اس کو
پیتے ہو یہاں تک کہ تم میں سے ایک اپنے چچا کے بیٹے کو تلوار سے مارتا ہے (نشہ میں
آکر جب عقل جاتی رہتی ہے تو دوست دشمن کی شناخت نہیں رہتی، اپنے بھائی کو جس کو سب
سے زیادہ چاہتا ہے تلوار سے مارتا ہے۔ شراب کی برائیوں میں سے یہ ایک بڑی بُرائی ہے،
جسے آپ نے بیان کیا) راوی نے کہاکہ ہمارے لوگوں میں اس وقت ایک شخص موجود تھا (جس
کا نام جہم تھا) اس کو اسی نشہ کی وجہ سے ایک زخم لگ چکا تھا اس نے کہا لیکن میں اس
کو رسول اللہ (ص) سے شرم کے مارے چھپاتا تھا۔ میں نے کہا یارسول اللہ (ص)! پھر کس
برتن میں ہم شربت پئیں؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ چمڑے کی مشقوں میں پیو، جن کا منہ (ڈوری
یا تسمے سے) باندھا جاتا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یارسول اللہ (ص)! ہمارے ملک میں چوہے
بہت ہیں، وہاں چمڑے کے برتن نہیں رہ سکتے تو آپ (ص) نے فرمایا چمڑے کے برتنوں میں
پیو اگرچہ چوہے ان کو کاٹ ڈالیں، اگرچہ ان کو چوہے کاٹ ڈالیں، اگرچہ ان کو چوہے کاٹ
ڈالیں۔ (یعنی جس طور سے ہو سکے چمڑے ہی کے برتن میں پیو، چوہوں سے حفاظت کرو لیکن
ان برتنوں میں پینا درست نہیں کیونکہ وہ شراب کے برتن ہیں) راوی نے کہا کہ رسول ا
للہ (ص) نے عبدالقیس کے اشج سے فرمایا کہ تجھ میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ
تعالیٰ پسند کرتا ہے، ایک تو عقلمندی اور دوسری سہولت اور اطمینان۔ (یعنی جلدی نہ
کرنا)۔ </font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 16 ==
:</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
ابو ذر (ر) کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ص) سے پوچھا کہ کونسا عمل افضل ہے؟ آپ
(ص) نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ میں نے کہا
کونسا بندہ آزاد کرنا افضل ہے؟ آپ (ص) نے فرمایا کہ جو بندہ اس کے مالک کوعمدہ
معلوم ہوا ور جس کی قیمت بھاری ہو۔ میں نے کہا کہ اگر میں یہ نہ کر سکوں؟ آپ (ص) نے
فرمایا کہ تو کسی صانع کی مدد کر یا کسی بے ہنر شخص کیلئے مزدوری کر (یعنی جو کوئی
کام اور پیشہ نہ جانتا ہو اور روٹی کا محتاج ہو) میں نے کہا اگر میں خود ناتواں ہوں؟
(یعنی کام نہ کر سکوں یا کوئی کسب نہ کر سکوں؟) آپ (ص) نے فرمایا کہ تو کسی سے
بُرائی نہ کر، یہی تیرا اپنے نفس پر صدقہ ہے۔ <br>
</font></span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 17: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3">سیدنا
ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ لوگ تم سے علم کی باتیں
پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہیں گے اللہ نے تو ہمیں پیدا کیا، پھر اللہ کو کس نے
پیدا کیا؟ راوی نے کہا کہ سیدنا ابو ہریرہ (ر) اس حدیث کو بیان کرتے وقت ایک شخص کا
ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔انہوں نے کہا سچ کہا اللہ اور اس کے رسول نے ،مجھ سے دو آدمی
یہی پوچھ چکے اور یہ تیسرا ہے یا یوں کہا کہ ایک آدمی پوچھ چکا ہے اور یہ دوسرا ہے۔
<br>
سیدنا ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اے
ابوہریرہ! ((ر)) لوگ تجھ سے (دین کی باتیں) پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یوں کہیں گے
کہ بھلا اللہ تو یہ ہے اب اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ کہتے ہیں کہ ایک بار میں مسجد
میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں کچھ دیہاتی آئے اور کہنے لگے کہ اے ابو ہریرہ! اللہ تو
یہ ہے، اب اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ یہ سن کر سیدنا ابو ہریرہ (ر) نے ایک مٹھی بھر
کنکریاں ان کو ماریں اور کہاکہ اٹھو، اٹھو! سچ کہا تھا میرے دوست رسول اللہ (ص) نے۔
<br>
</font></span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 18: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3">سیدنا
سفیان بن عبداللہ الثقفی (ر) سے روایت ہے کہ میں نے کہا یارسول اللہ (ص)! مجھے
اسلام میں ایک ایسی بات بتا دیجئے کہ پھر میں اس کو آپ (ص) کے بعد (اور ابو اسامہ
کی روایت میں ہے کہ آپ (ص) کے سوا) کسی سے نہ پوچھوں۔ آپ (ص) نے فرمایا کہ کہہ میں
اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر قائم رہ۔ <br>
</font></span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 19: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
ابوہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ ہر ایک پیغمبر کو وہی
معجزے ملے ہیں جو اس سے پہلے دوسر ے پیغمبر کو مل چکے تھے پھر ایمان لائے اس پر
آدمی لیکن مجھے جو معجزہ ملا وہ قرآن ہے جو اللہ نے میرے پاس بھیجا (ایسا معجزہ کسی
پیغمبرکو نہیں ملا) اس لئے میں امیدکرتا ہوں کہ میری پیروی کرنے والے قیامت کے دن
سب سے زیادہ ہوں گے۔ </font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 20: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3">سیدنا
ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے
ہاتھ میں محمد ((ص)) کی جان ہے (میرے اس زمانہ سے قیامت تک )کوئی یہودی یا نصرانی (یا
اور کوئی دین والا) میرا حال سنے پھر اس پر ایمان نہ لائے جو کہ میں دیکر بھیجا گیا
ہوں (یعنی قرآن و سنت پر) تو وہ جہنم میں جائے گا۔</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2">
== 21 ==
:
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3">سیدنا
صالح بن صالح الہمدانی ، شعبی سے روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو
دیکھا جو کہ خراسان کا رہنے والا تھا اس نے شعبی سے پوچھا کہ ہمارے ملک کے لوگ کہتے
ہیں کہ جو شخص اپنی لونڈی کو آزاد کرکے پھر اس سے نکاح کر لے تو اس کی مثال ایسی ہے
جیسے کوئی قربانی کے جانور پر سواری کرے۔ شعبی نے کہا کہ مجھ سے ابو بردہ بن ابی
موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد سے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا ”تین قسم کے
آدمیوں کودوہرا ثواب ملے گا۔ ایک تو وہ شخص جو اہل </font>
<span style="line-height: normal; color: red"><font size="3">کتاب </font></span>
<font size="3">میں سے ہو“ (یعنی یہودی یا نصرانی) اپنے پیغمبر پر ایمان لایا ہواور
پھر میرا زمانہ پائے اور مجھ پر بھی ایمان لائے، میری پیروی کرے اور مجھے سچا جانے
گا تو اس کو دوہرا ثواب ہے۔ اور ایک اس غلام کو جو اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے
مالک کا بھی، اس کو دوہرا ثواب ہے۔ اور ایک اس شخص کو جس کے پاس ایک لونڈی ہو، پھر
اچھی طرح اس کو کھلائے اور پلائے اس کے بعد اچھی طرح تعلیم و تربیت کرے، پھر اس کو
آزاد کرکے اس سے نکاح کر لے تو اس کو بھی دوہرا ثواب ہے۔ پھر شعبی نے خراسانی سے
کہا کہ تو یہ حدیث بغیر محنت کئے لے لے، نہیں تو ایک شخص اس سے چھوٹی حدیث کیلئے
مدینے تک سفر کیا کرتا تھا۔ <br>
</font></span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 22: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
انس (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: تین باتیں جس میں ہوں گی وہ ان کی
وجہ سے ایمان کی مٹھاس اور حلاوت پائے گا۔ ایک تو یہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے
دوسرے سب لوگوں سے زیادہ محبت رکھے۔ دوسرے یہ کہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے واسطے
دوستی رکھے (یعنی دنیا کی کوئی غرض نہ ہو اور نہ ہی اس سے ڈر ہو) تیسرے یہ کہ کفر
میں لوٹنے کو بعد اس کے کہ اللہ نے اس سے بچا لیا اس طرح برا جانے جیسے آگ میں ڈال
دیا جانا۔ </font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 23: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3">سیدنا
انس (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: تم میں سے کوئی بندہ اس وقت تک مومن
نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کو میری محبت اولاد، ماں باپ اور سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"> <br>
== 24: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
انس (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں
میری جان ہے کہ کوئی آدمی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے یا ہمسایہ بھائی کیلئے
وہی نہ چاہے جو وہ اپنے لئے چاہتا ہے۔ <br>
</font><span style="color: blue; line-height: normal"><font size="2">کتاب</font></span><font size="2">:
جو شخص اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر راضی ہو گیا، اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا۔</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"> <br>
== 25: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
عباس بن عبدالمطلب (ر) سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (ص) سے سنا، آپ (ص)
فرماتے تھے کہ اس نے ایمان کا مزا چکھ لیا جو اللہ کے پروردگار عالم (لائق عبادت)
ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد (ص) کے پیغمبر ہونے پر راضی ہو گیا۔ <br>
</font></span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 26: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
عبداللہ بن عمرو (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: چار باتیں جس میں ہوں گی
وہ تو خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے ایک خصلت ہو گی، تو اس میں نفاق
کی ایک ہی عادت ہے، یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے۔ ایک تو یہ کہ جب بات کرے تو جھوٹ
بولے، دوسری یہ کہ جب معاہدہ کرے تو اس کے خلاف کرے، تیسری یہ کہ جب وعدہ کرے تو
پورا نہ کرے، چوتھی یہ کہ جب جھگڑا کرے تو بدکلامی کرے یا گالی گلوچ کرے۔ اور سفیان
کی روایت میں ”خلہ“ کی جگہ ”خصلة“کا لفظ ہے۔ </font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 27: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3">سیدنا
ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ]نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب
بات کرے تو جھوٹی بات کرے، جب وعدہ کرے تو وعدہ کے خلاف کرے اور جب اسے امانت سونپی
جائے تو اس میں خیانت کرے۔ <br>
</font></span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 28: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
کعب بن مالک (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: مومن کی مثال ایسی ہے جیسے
کھیت کا نرم جھاڑ ہو، ہوا اس کو جھونکے دیتی ہے، کبھی اس کو گرا دیتی ہے اور کبھی
سیدھا کر دیتی ہے، یہاں تک کہ سوکھ جاتا ہے۔ اور کافر کی مثال ایسی ہے جیسے صنوبر
کا درخت، جو اپنی جڑ پر سیدھا کھڑا رہتا ہے، اس کو کوئی چیز نہیں جھکاتی یہاں تک
کہایک بارگی اکھڑ جاتا ہے۔ایک روایت میں ہے کہ مومن کی مثال اس کھیتی کی طرح ہے جس
کو ہوا کبھی گرا دیتی ہے اور کبھی سیدھا کھڑا کر دیتی ہے حتی کہ وہ پک کر تیار ہو۔
اور منافق کی مثال اس صنوبر کے درخت کی طرح ہے سیدھا کھڑا ہو اور اس کو کوئی چیز نہ
پہنچے۔ <br>
وضاحت : اجل سے مراد وقت مقررہ ہے اور کھیتی کے لئے اجل: اس کا پک جانا اور کٹائی
کے تیار ہونا ہے (م۔ع) <br>
</font></span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 29: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
عبداللہ بن عمر (ر) سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اکرم (ص) کے پاس بیٹھے
ہوئے تھے کہ آپ (ص) نے فرمایا کہ مجھے اس درخت کے متعلق بتاؤ جو مومن (مسلم) کے
مشابہ ہے یا مسلمان آدمی کی طرح ہے، (اس کی نشانی یہ ہے کہ) اس کے پتے نہیں گرتے،
پھل ہر وقت دیتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر صکہتے ہیں کہ میرے دل میں خیال پیدا ہوا
کہ یہ کھجور کا درخت ہے اور میں نے دیکھا کہ سیدنا ابو بکر صاور سیدنا عمر (ر) کوئی
بات نہیں کر رہے تو میں نے بات کرنا یا کچھ کہنا اچھا خیال نہ کیا۔ (بعد میں آپ (ص)
نے کھجور کا درخت بتایا۔ اور عبداللہ بن عمر (ر) نے سیدنا عمر (ر) سے ذکر کیا ) تو
سیدنا عمر (ر) نے کہا کہ اگر تو اس وقت بول دیتا تو مجھے ایسی چیزوں سے زیادہ پسند
تھا۔ (یعنی مجھے بہت خوشی ہوتی)۔ <br>
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 30: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3">سیدنا
ابو ہریرہ (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ ایمان کی ستر پرکئی یا ساٹھ
پر کئی شاخیں ہیں۔ ان سب میں افضل لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے اور ان سب میں ادنیٰ،
راہ میں سے موذی چیز کا ہٹانا ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2">
== 31 ==
:</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
ابو قتادہ (ر) کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عمران بن حصین (ر) کے پاس ایک رہط (دس سے کم
مردوں کی جماعت کو رہط کہتے ہیں) میں تھے اور ہم میں بشیر بن کعب بھی تھے۔ سیدنا
عمران (ر) نے اس دن حدیث بیان کی کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ حیا خیر ہے بالکل،
یا حیا بالکل خیر ہے۔ بشیر بن کعب نے کہاکہ ہم نے بعض کتابوں میں یا حکمت میں دیکھا
ہے کہ حیا کی ایک قسم تو سکینہ اور وقار ہے اللہ تعالیٰ کیلئے اور ایک حیا ضعفِ نفس
ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمران صکو اتنا غصہ آیا کہ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں ا ور انہوں
نے کہا کہ میں تو رسول اللہ (ص) کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو اس کے خلاف بیان کرتا
ہے۔ سیدنا ابو قتادہ نے کہا کہ سیدنا عمران صنے پھر دوبارہ اسی حدیث کو بیان کیا۔
بشیر نے پھر دوبارہ وہی بات کہی تو سیدنا عمران غصہ ہوئے (اور انہوں نے بشیر کو سزا
دینے کا قصد کیا) تو ہم سب نے کہا کہ اے ابونجید! (یہ سیدنا عمران بن حصین صکی کنیت
ہے) بشیر ہم میں سے ہے (یعنی مسلمان ہے) اس میں کوئی عیب نہیں۔ (یعنی وہ منافق یا
بے دین یا بدعتی نہیں ہے جیسے تم نے خیال کیا)۔ <br>
</font></span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 32: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3">سیدنا
ابو شریح الخزاعی (ر) سے روایت ہے کہ نبی (ص) نے فرمایا: جو شخص اللہ پر اور آخرت
کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایہ کیساتھ نیکی کرے اور جو شخص اللہ پر اور
آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہما ن کیساتھ احسان کرے اور جو شخص اللہ پر
اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے (جس میں بھلائی ہو یا ثواب ہو)
یا چپ رہے۔ <br>
</font><span style="color: blue; line-height: normal"><font size="2">کتاب</font></span><font size="3">:
وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کا ہمسایہ اس کی مصیبتوں سے محفوظ نہ ہو۔</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> <br>
== 33: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3">سیدنا
ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ وہ شخص جنت میں نہ جا
ئیگا جسکا ہمسایہ اسکے مکرو فساد سے محفوظ نہیں ہے۔ <br>
</font></span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 34: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3">طارق
بن شہاب کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس نے عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا وہ
مروان تھا (حکم کا بیٹا جو خلفاء بنی امیہ میں سے پہلا خلیفہ ہے) اس وقت ایک شخص
کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ نماز خطبہ سے پہلے ہے۔ مروان نے کہا کہ یہ بات موقوف کر
دی گئی۔ سیدنا ابو سعید (ر) نے کہاکہ اس شخص نے تو اپنا فرض ادا کر دیا، میں نے
رسول اللہ (ص) سے سنا آپ (ص) نے فرمایا کہ جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلافِ شرع)
کام کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے اور
اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی۔ (دل میں اس کو بُرا جانے اور اس سے بیزار
ہو) یہ ایمان کا سب سے کم درجہ ہے۔</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"> <br>
== 35: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
عبداللہ بن مسعود (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے
مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کے ، اس کی امت میں سے حواری اور اصحاب
نہ ہوں جو اس کے طریقے پر چلتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے۔ پھر ان لوگوں
کے بعد ایسے نالائق لوگ پیدا ہوتے ہیں جو زبان سے کہتے ہیں اور کرتے نہیں اور ان
کاموں کو کرتے ہیں جن کا حکم نہیں دیئے جاتے۔ پھر جو کوئی ان نالائقوں سے ہاتھ سے
لڑے وہ مومن اور جو کوئی زبان سے لڑے (ان کو بُرا کہے اور ان کی باتوں کا رد کرے)
وہ بھی مومن ہے اور جو کوئی ان سے دل سے لڑے (دل میں ان کو بُرا جانے) وہ بھی مومن
ہے اور اس کے بعد دانے برابر بھی ایمان نہیں۔ (یعنی اگر دل سے بھی بُرا نہ جانے تو
اس میں ذرہ برابر بھی ایمان نہیں)۔ سیدنا ابو رافع (ر) (جنہوں نے اس حدیث کو سیدنا
ابن مسعود (ر) سے بیان کیا، وہ رسول اللہ (ص) کے مولیٰ تھے) نے کہا کہ میں نے یہ
حدیث عبداللہ بن عمر (ر) سے بیان کی، انہوں نے نہ مانا اور انکار کیا۔ اتفاق سے
میرے پاس سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) آئے اور قناة (مدینہ کی وادیوں میں سے ایک
وادی کا نام ہے) میں اترے تو سیدنا عبداللہ بن عمر (ر) مجھے سیدنا عبداللہ بن مسعود
(ر) کی عیادت کیلئے اپنے ساتھ لے گئے۔ میں ان کیساتھ گیا۔ جب ہم بیٹھے تو میں نے
سیدنا عبداللہ بن مسعود (ر) سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اسی طرح بیان
کیا جیسے میں نے سیدنا ابن عمر (ر) سے بیان کیا تھا۔ <br>
</font></span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 36: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
زر بن حبیش (ر) کہتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابی طالب (ر) نے کہاکہ قسم ہے اس کی جس نے
دانہ چیرا (پھر اس سے گھاس اگائی) اور جان بنائی، رسول اللہ (ص) نے مجھ سے عہد کیا
تھا کہ مجھ سے سوائے مومن کے کوئی محبت نہیں رکھے گا اور مجھ سے منافق کے علاوہ اور
کوئی شخص دشمنی نہیں رکھے گا۔ <br>
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 37: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
براء (ر) نبی (ص) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے انصار کے بارے میں فرمایا کہ ان
کا دوست مومن ہے اور ان کا دشمن منافق ہے اور جس نے ان سے محبت کی اللہ تعالیٰ اس
سے محبت کرے گا اور جس نے ان سے دشمنی کی اللہ تعالیٰ اس سے دشمنی کرے گا۔ <br>
</font></span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 38: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3">سیدنا
ابوہریرہ (ر) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: ایمان اس طرح سمٹ کر مدینہ
میں آ جائے گا جیسے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں سما جاتا ہے۔ <br>
</font></span></font></p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 39: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3">سیدنا
ابو ہریرہ (ر) سے روایت ہے، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (ص) کو یہ فرماتے ہوئے
سنا کہ یمن کے لوگ (خود مسلمان ہونے کو)آئے اور وہ لوگ نرم دل ہیں اور نرم خو ہیں۔
ایمان یمن کا ہی اچھا ہے اور حکمت بھی یمن ہی کی (بہتر) ہے اور غریبی اور اطمینان
بکریوں والوں میں ہے اور بڑائی و شیخی مارنا اور فخر و گھمنڈ کرنا گھوڑے والوں اور
اونٹ والوں میں ہے جو چلاتے ہیں اور وبر والے ہیں، سورج کے طلوع ہونے کی طرف سے۔
<br>
وضاحت : وبر کا معنی اونٹ کے بال۔ مراد اونٹوں والے۔ (م۔ ع) </font></span></font>
</p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="2"><br>
== 40: ==
</font></span></font></p>
<p> </p>
<p><font face="Urdu Naskh Asiatype"><span class="postbody"><font size="3"> سیدنا
جابر بن عبداللہ (ر) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایاکہ دلوں کی سختی اور
کھرکھرا پن مشرق (پورب) والوں میں ہے اور ایمان حجاز والوں میں۔</font></span></font></p>
== 41: ==
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا کہ دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے (ایک) تندرستی (دوسرے) خوش حالی۔ (صحیح بخاری)۔
==حوالہ جات==
{{Wikipedia }}
{{حوالہ جات}}
{{ویکیپیڈیا}}
[[زمرہ:مذہبیمحمد رہنماصل للہ علیہ والہ وسلم]]
[[زمرہ:اسلام]]
[[زمرہ:مسلمان]]
[[زمرہ:مسلمان شخصیات]]
[[زمرہ:مسلمان رہنماء]]
|