"علی ہجویری" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 3:
*صوفی کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اپنے محبوب سے وابستہ رکھے اور دنیائے غدار و بے وفا کے علل و اَسباب سے آزاد رہے کہ یہ دنیاء سرائے فجار و فساق ہے اور صوفی کا سرمایہ ٔ زِندگی محبتِ محبوبِ حقیقی ہے اور متاعِ دنیاء مناع راہِ رضا و صبر ہے۔
**[[کشف المحجوب]]: باب دؤم، اثباتِ فقر، صفحہ 103
*محبت کا اظہار الفاظ میں نہیں ہوسکتا۔ اِس لئے کہ بیان‘ بیان کرنے کی صفت ہے اور [[محبت]] [[محبوب]] کی صفت ہے۔
*کرامت ولی کی صداقت کی علامت ہوتی ہے اور اُس کا ظہور جھوٹے سے جائز نہیں۔
*ایمان و معرفت کی انتہا [[عشق]] و [[محبت]] ہے اور [[محبت]] کی علامت بندگی ہے۔
*راہِ حق کا پہلا قدم توبہ ہے۔
*انسانوں کا کوئی گروہ ایسا نہیں، جسے غیب میں کوئی ایسا کام نہ پڑا ہو جس کی [[محبت]] سے اپنے [[دل]] میں فرحت یا زخم نہ رکھتا ہو۔
*کھانے کے ادب کی شرط یہ ہے کہ تنہا نہ کھائیں اور جو کھائیں، ایک دوسرے پر ایثار کریں۔
*طالبِ حق کو چاہیئے کہ چلتے وقت یہ خیال رکھے کہ اپنا قدم زمین پر کس لئے رکھتا ہے۔ خواہش نفسانی کے لئے یا [[اللہ]] تعالیٰ کے لئے؟ اگر وہ خواہش نفسانی کے لئے زمین پر قدم نہیں رکھتا ہے، تو اُس میں اور بھی کوشش کرے تاکہ اُسے مزید خوشنودی حاصل ہوجائے۔
*کلام شراب کی طرح ہے، جو عقل کو مست کردیتی ہے اور آدمی جب اُس کے پینے میں پڑ جاتا ہے تو اُس سے باہر نہیں نکل سکتا اور اپنے آپ کو اُس سے روک نہیں سکتا۔
*جو چیز دولت مند کی خراب ہوجائے، اُس کا عوض ہوسکتا ہے لیکن جو چیز درویش کی بگڑ جائے تو اُس کا کوئی عوض نہیں ہوتا۔
*[[دل]] پر ایک حجاب ہے جو ایمان کے سوا کسی اور چیز سے دور نہیں کیا جاسکتا اور وہ [[کفر]] اور گمراہی کا حجاب ہے۔
*شریعت اور طریقت میں رقص کی کوئی سند نہیں، کیونکہ وہ عقل مندوں کے اتفاق سے جب اچھی طرح کیا جائے تو لہو ہوتا ہے اور جب بے ہُودہ طور پر کیا جائے تو لغو ہوتا ہے۔
*مسلسل عبادت سے مقامِ کشف و مشاہدہ ملتا ہے۔
*رضا کی دو قسمیں ہیں: اول‘ خدا کا بندے سے راضی ہونا، دؤم‘ بندے کا خدا سے راضی ہونا۔
*دین دار لوگوں کو خواہ وہ کیسے ہی غریب و نادار ہوں، چشم حقارت سے نہ دیکھو کہ اُس سے فی الجملہ خدا تعالیٰ کی تحقیر لازم ہوتی ہے۔
*صوفی وہ ہے جس کے ایک ہاتھ میں [[قرآن]] مجید اور دوسرے ہاتھ میں سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے۔
*نفس کی مثال شیطان کی سی ہے اور اُس کی مخالفت عبادت کا کمال ہے۔
*غافل امراء، کاہل فقیر اور جاہل درویشوں کی صحبت سے پرہیز کرنا عبادت ہے۔
*سارے ملک کا بگاڑ اِن تین گروہوں کے بگڑنے پر ہے۔ حکمران جب بے علم ہوں، عالم بے عمل ہوں اور فقیر جب بے توکل ہوں۔
*درویش کو لازم ہے کہ وہ بادشاہ کی ملاقات کو سانپ اور اژدھے کی ملاقات کے برابر سمجھے۔
**تاریخ ساز اقوال، صفحہ 77۔
 
==مزید پڑھیں==